محمد نوید خان
اپنے لبنانی حامیوں میں دیومالائی شہرت رکھنے والے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت ایک ایسا واقعہ ہے جس کو ابھی تک حزب اللہ کے حامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ اسرائیل نے اس کے لیے کئی مرتبہ کوشش کی اور وہ متواتر حسن نصراللہ کا تعاقب کر رہا تھا۔
واضح رہے کہ اپنی شہادت سے قبل حسن نصر اللہ نے آخری عوامی خطاب میں کہا تھا کہ اگر اسرائیل جنوبی لبنان پر حملہ کرتا ہے تو یہ تاریخی موقع ہو گا۔
حزب اللہ نے اسرائیلی حملے میں حسن نصراللہ کی شہادت کی تصدیق کر دی
ان کے الفاظ اور جملے کا مطلب تو سیدھا سادہ یہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے حامیوں سے کہہ رہے تھے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر وہ اسرائیل کا مقابلہ کریں گے۔
حال ہی میں بی بی سی کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حزب اللہ ابھی اتنی کمزور نہیں ہے۔ گزشتہ 18 سال تک حزب اللہ کے حامی اکیلے جنگ لڑنے کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ٹیکنالوجی میں عبور حاصل کرنے کے لیے اسلحے کے ذخیرے میں بھی جدت لائی ہے۔
عالمی تجزیہ کار بتا رہے ہیں کہ حزب اللہ کے پاس میزائلوں کے علاوہ ایسے گائیڈڈ ہتھیار بھی موجود ہیں جو اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے علاوہ دیگر شہروں تک پہنچ سکتے ہیں۔ حزب اللہ کے کئی حامی شام میں مصروف ہیں اور وہ بدلہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مشرقی وسطیٰ کے حالات اب اتنے اچھے نہیں رہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ حزب اللہ اور اس کے ممنکہ نئے سربراہ ہاشم صفی اللہ کو بھی حسن نصراللہ جیسا کردار ادا کرنے میں وقت درکار ہوگا۔ مگر بعض کی رائے ہے کہ ممکنہ طور ہر نئے سربراہ پر یہ دباؤ ہوگا کہ وہ کچھ ایسا کریں جس کے نتیجے میں ان میں حسن نصر اللہ جیسی قیادت کی جھلک نظر آ سکے اور حسن نصر اللہ کے آخری الفاظ کہ ‘جنوبی لبنان میں اسرائیل حملہ ایک موقع ہوگا’ کو پورا کرسکیں۔
اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیراعظم کے خطاب کے دوران پاکستان کا احتجاجاً واک آؤٹ
جنگ کا امکان کتنا ہے؟
تنازعات اور مشرقی وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی فیض اللہ خان کے مطابق حسن نصراللہ پر حملہ اور پھر پیچرز دھماکے بتا رہے ہیں کہ اسرائیل بظاہر حزب اللہ کے بہت اندر تک سرایت کر چکا ہے۔ پیچرز دھماکوں کے بعد خود حسن نصراللہ نے شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کو لگا تھا کہ بہت خوفناک ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر تو ایسے لگتا ہے کہ حسن نصراللہ اور پیچرز حملے آنا فاناً نہیں ہوئے ، یوں لگتا ہے کہ اسرائیل نے کافی عرصے سے حزب اللہ کے اندر تک اپنا نیٹ ورک بڑھا لیا تھا بس وہ کسی مناسب موقع اور وقت کا انتظار کر رہا تھا یا پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ایسے وقت کا انتظار کر رہا تھا جو کہ اس کے خیال میں بہترین ہو۔
فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے درست سمجھا وار کردیا اور یہ وار رائیگاں نہیں گئے، اسرائیل کو کامیابی ملی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کی صفوں میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے کہ یہ کیا ہے اور کیسے ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر تو نہیں لگتا ہے کہ حزب اللہ اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی لمبی اور بڑی جنگ چھیڑ سکتا ہے یا اسرائیل کے اندر کوئی موثر کاروائی کر سکتا ہے۔ اس وقت تو اگر کچھ چھوٹی موٹی سرحدی جھڑپوں وغیرہ تک حزب اللہ کی طرف سے کچھ ہوا تو ہو سکتا ہے مگر شاید اس سے زیادہ حزب اللہ کی نئی قیادت اس پر نہ سوچے۔
فیض اللہ خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ایران نے بھی محتاظ رویہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ بھی اس وقت زیادہ مسائل نہیں چاہتا۔ ویسے بھی اس وقت اسماعیل ہنیہ کی اسرائیل میں مارے جانے اور اب حزب اللہ کے سربراہ کے مارے جانے کے بعد انھوں نے اپنے سربراہ آیت اللہ علی خامنہ ای کو بھی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ ایک لمبی جنگ سے قبل حزب اللہ کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اب کیا ہوگا؟َ
کئی تجزیہ نگار متفق ہیں کہ بظاہر اسرائیل نے ایک کے بعد ایک بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہ بات ایران، حزب اللہ کے لیے باعث تشویش ہے اور ایران ممکنہ طور پر اسرائیل کے خلاف کوئی بڑی جنگ تو نہ چھیڑے لیکن وہ اپنے زیر اثر گروپس کو فعال کرسکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں ہوسکتا ہے کہ ایران شام، عراق، یمن میں اپنے زیر اثر گروپوں کو اسرائیل کے مفادات پر حملے کرنے کا کہے اور ہوسکتا ہے کہ اس میں اضافہ ہو جائے مگر اس کے لیے اسرائیل پہلے ہی سے تیار ہے، اس نے پہلے ہی سے دفاعی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
تجزیہ نگاروں کے بقول اگر اسرائیل کی حدود اور اس کی فضا میں کچھ ہوا تو ممکنہ طور پر اسرائیل کسی بھی بڑے حملے سے گریز نہیں کرے گا اور اپنی فضائی طاقت کا بے دریغ استعمال کر سکتا ہے۔
فیض اللہ خان کے بقول اس وقت بظاہر سب سے مضبوط خوثی باغی نظر آتے ہیں۔ ان کا ری ایکشن بہت زیادہ اہم ثابت ہوا ہے اور وہ خطرہ بھی پیدا کرسکتے ہیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اس وقت کسی جنگ بندی پر آمادہ نہیں اور وہ دباؤ کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔