کھانسی کا ایک شربت پینے کے بعد اٹھارہ بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ ابتدائی تجزیوں کے مطابق اس دوا میں ایک زہریلا مواد ’ایتھیلین گلائیکول‘ پایا گیا ہے۔ افریقہ کے ملک میں بھی ایک اور کمپنی کی تیارکردہ دوائی سے ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔ دنیا میں استعمال ہونے والی ادوایات کا ایک تہائی حصہ انڈیا میں تیار ہوتا ہے جو ترقی پزیر ممالک کی ضرورت کو پورا کررہا ہے۔
Picture Credit :Marion Biotech
پاکستان اسٹوریز رپورٹ
ازبکستان کی وزارتِ صحت نے دعوی کیا ہے کہ کھانسی کا شربت پینے کے بعد 18 بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔ کھانسی کا شربت انڈیا میں ادویات بنانے والی کمپنی میرین بائیو ٹیککی تیار کردہ تھی۔
ازبکستان وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ابتدائی تجزیوں کے مطابق اس دوا میں ایک زہریلا مواد ’ایتھیلین گلائیکول‘ پایا گیا ہے۔
ازبکستان کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو ڈوک -1 میکس نامی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دوا کی مقدار بھی بچوں کو دی جانے والے مخصوص مقدار سے زیادہ تھی۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے۔ جس میں انڈیا کی ایک اور دوا ساز کمپنی کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق افریقی ملک گیمبیا میں بھی بچوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کھانسی کی ایک دوا کو قرار دیا گیا تھا جو ایک دوسری انڈین کمپنی بناتی ہے۔
انڈیا کی وزارتِ صحت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزارت صحت کے اہلکاروں نے 27 دسمبر سے اس معاملے کے سلسلے میں ازبکستان کے حکام سے رابطے میں ہیں۔ انڈیا کی وزارتِ صحت نے مزید بتایا کہ اتر پردیش کے علاقے نوئیڈا میں میرین بائیو ٹیک کمپنی کی فیکٹری کا معائنہ کیا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فیکٹری سے کھانسی کے اس شربت کے نمونے حاصل کیے جا چکے ہیں اور انھیں چندی گڑھ میں ادویات کو ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹری میں بھیجا جا چکا ہے۔جس کی رپورٹ آنے کے بعد مزید کاروائی کی جائے گئی۔
اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے میرین بائیو ٹیک سے اس معاملے پر اپنا موقف دینے کی درخواست کی ہے لیکن ابھی تک کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ایک اور نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق میرین بائیو ٹیک کے ایک اعلی اہلکار کا کہنا ہے کہ کمپنی نے اس دوا کی تیاری عارضی طور پر روک دی ہے۔ اہلکار نے نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور کمپنی اس کے مطابق اقدامات کرے گی۔
میرین بائیو ٹیک نامی کمپنی انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے قریب نوائیڈا میں واقع ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ اس وقت کام نہیں کر رہی ہے تاہم کمپنی کے لنکڈ اِن پیچ کے مطابق کمپنی سنہ 1999 میں قائم کی گئی تھی اور اس کی تیار کردہ مصنوعات وسطی ایشیائی، لاطینی اور وسطی امریکی، جنوب مشرقی ایشیائی اور افریقی ممالک میں گھر گھر میں جانی پہچانی جاتی ہیں۔
دنیا بھر میں تیار ہونے والی ادویات کا ایک تہائی انڈیا میں تیار ہوتا ہے جن میں زیادہ تر عام ادویات ہیں جنھیں دوسری کپمنیاں اپنے برانڈ ناموں سے بیچتی ہیں۔ انڈیا میں ادویات بنانے کی صنعت انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اسی لیے انڈیا کو دنیا کی فارمیسی بھی کہا جاتا ہے جو ترقی پزیر ممالک کی ضروریات کو بڑی حد تک پورا کرتا ہے۔
ازبکستان کی وزارتِ صحت کے 27 دسمبر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈوک – 1 میکس گولیاں اور شربت ملک میں سنہ 2012 سے فروخت کیا جا رہا ہے۔
وزارتِ صحت نے بتایا ہے کہ ’یہ معلوم ہوا ہے کہ ہلاک ہونے والے بچوں نے ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے دو سے سات روز تک روزآنہ تین سے چار مرتبہ اس دوا کی 2.5 سے 5 ملی لیٹر کی خوراک پی تھی۔‘
نیوز ویب سائٹ گزیٹا ڈاٹ یو زیڈ کے مطابق ’ازبک حکام گزشتہ دو مہینوں میں وسطی ثمرقند میں 15 بچوں کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہے ہیں جنھوں نے انڈیا میں تیار کردہ کھانسی کا شربت پیا تھا۔‘
26 دسمبر کو پوڈرابنو ڈاٹ یو زیڈ نیوز نے لکھا کہ 21 بچوں کا گردوں کے فیل ہو جانے کا علاج کیا گیا۔ ان میں 15 بچے تین سال سے کم عمر کے تھے۔ مبینہ طور پر ان بچوں کی یہ حالت انڈیا میں تیار کیے جانے والے کھانسی کے شربت ڈوک – 1 میکس پینے سے ہوئی تھی۔ ان بچوں نے یہ دوا ستمبر سے دسمبر تک پی تھی۔ ان سے تین بچے صحت یاب ہو سکے۔
وزارتِ صحت نے بتایا ہے کہ لیباریٹری میں کیے جانے والے ابتدائی تجزیوں کے مطابق ڈوک -1 میکس نامی کھانسی کے شربت میں ایتھیلین گلائیکول پایا گیا۔
اس سال اکتوبر میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بین الاقوامی سطح پر انتباہ جاری کیا تھا اور گیمبیا میں 66 بچوں کی گردوں کے انفیکشن سے ہلاکت کا ذمہ دار انڈیا میں تیار کردہ کھانسی کی دوا کو قرار دیا تھا۔
تاہم انڈیا کی حکومت اور کمپنی میڈن فارماسوٹیکلز نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
دسمبر کے آغاز میں انڈیا نے کہا تھا کہ کھانسی کی چاروں ادویات کے تجزیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ انھیں مطلوبہ معیار کے مطابق تیار کیا گیا۔
انڈین حکومت کے ایک اہلکار نے بین الاقوامی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے کھانسی کی ان ادوایات کو ذمہ دار قرار دینے میں اچھارویہ اختیار نہیں کیا۔ تاہم ڈبلیو ایچ او نے اپنے اقدامات کو درست قرار دیا۔
چند روز قبل گیمبیا کی پارلیمانی کمیٹی نے کئی ہفتوں کی تحقیقات کے بعد انڈین کمپنی میڈن فارماسوٹیکلز کے خلاف قانونی کارروائی اور اس کمپنی کی مصنوعات پر ملک میں پابندی عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔