محمد نوید خان
اگر میرا بیٹا معصوم بچی کی جان بچانے کے لیے کردار ادا نہ کرتا تو مجھے اس پر حیرت ہوتی۔ اس نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر بچی کی جان بچائی تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہے۔ ہم نے ہمیشہ اولاد کو انسانیت کا درس دیا ہے۔ ہمارے ملک، قوم قبیلے کے لوگ اسی طرح کے ہیں، مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے۔
یہ کہنا ہے کہ عبداللہ تنولی کی والدہ رشیدہ بی بی کا۔
عبداللہ تنولی کو لندن کے میئر صادق خان نے خط لکھ کر ہیرو آف لسٹر قرار دیا ہے۔ صادق خان نے ان کی بہادری کا یہ اعتراف اس واقعہ پر کیا ہے جس کی کوریج اس وقت پوری دنیا کا میڈیا کر رہا ہے۔
عبداللہ تنولی نے برطانیہ کے شہر لندن کے سب سے مصروف ترین چوک میں ایک بچی کی جان اس وقت بچائی جب ایک شخص بچی پر چاقو کے وار کر رہا تھا۔ اس وقت عبداللہ تنولی نے نہ صرف بچی کی جان بچائی بلکہ پولیس کے پہچنے تک حملہ آور کو قابو کیے رکھا جس پر پولیس افسر نے ان سے کہا کہ آپ بہت بہادر ہو۔
یہ واقعہ کیسے ہوا اس پر عبداللہ تنولی، ان کے والدین، بھائی اور برطانیہ کی حکومت اور پولیس نے کیا کہا اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے جانیے کہ عبداللہ تنولی کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔
پنڈ ہاشم خان کا عالم دین خاندان
عبداللہ تنولی کا آبائی تعلق ضلع ہری پور کے علاقے پنڈ ہاشم خان سے ہے۔ عبداللہ کا خاندان پورے خطے میں معروف ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالرحمٰن ممتاز عالم دین اور پنڈ ہاشم خان کی مرکزی مسجد کے خطیب رہے ہیں۔
عبداللہ تنولی کے والد حفیظ الرحمٰن سعودی عرب میں ملازمت کرتے رہے اور اب وہ ایبٹ آباد میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
حفیظ الرحمن کے 5 بیٹے اور دو بیٹاں ہیں۔ جس میں تین سعودی عرب، عبداللہ تنولی برطانیہ جبکہ ان کے ایک بیٹا سعد رحمٰن ایبٹ آباد ہی میں رہائش پزیر ہے۔
اسعد رحمٰن کا کہنا تھا کہ ہمیں شروع ہی سے انسانیت سے محبت کا درس دیا گیا، ویسے بھی معاشرتی طور پر ہم لوگوں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا، کام آنا اور مشکل کے وقت کسی کو اکیلا نہ چھوڑنا جیسی روایات پائی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب واقعہ پیش آیا تو سب سے پہلے عبداللہ نے مجھے کال کر کے یہ سارا واقعہ سنایا تھا۔
اسعد رحمٰن کہتے ہیں کہ عبداللہ زمانہ طالب علمی ہی سے سوشل سرگرمیوں میں مصروف رہتا تھا۔ وہ اپنی یونیورسٹی کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد میں بلڈ ڈونر تنظیم کا ممبر تھا۔ اکثر اوقات خود بھی اور اپنے دوستوں اور خاندان کے ہمراہ مل کر رفاعی کام کرتا تھا۔
عبداللہ تنولی فٹبال سے بہت لگاؤ رکھتے ہیں۔ وہ ایک شاندار گول کپیر بھی ہیں اور کئی اعزازت بھی حاصل کر رکھے ہیں۔
اسعد رحمٰن کا کہنا تھا کہ عبداللہ تنولی کامیسٹس یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے تھے اور اس وقت پوسٹ گریجویٹ ڈگری پر تھے۔
عبداللہ تنولی مکمل پر سکون تھا
اسعد رحمٰن کہتے ہیں کہ جب عبداللہ تنولی نے مجھے کال کی تو اس وقت وہ مکمل پر سکون تھا۔ پورا واقعہ سننے کے بعد میں نے عبداللہ سے کہا کہ وہ سکون سے اپنے کام والی جگہ پر چلا جائے۔ قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کرے جس پر اس نے ایسے ہی کیا تھا۔
بہادر ریسیکو ورکر نے بپھرے ہوئے دریائے چترال سے انسانی زندگی بچا لی
رشیدہ بی بی کہتی ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو ممکن ہوسکتا تھا کیا۔ ان کو تمام سہولتیں فراہم کیں۔ وہ جہاں جہاں پڑھنا چاہتے تھے ان کی مدد کی مگر اس کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم کام کیا اور جس پر ہمیشہ ہماری دلچسپی رہی اور جو بچوں کی تعلیم و تربیت کا محور تھا وہ ان کی اخلاقی تربیت تھا۔
رشیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کو سمجھایا اور سکھایا تھا کہ انسانیت، اخلاق و کردار سب سے بڑی دولت ہے۔ بہادر ہونا کسی کی مدد کرنا سب سے افضل کام ہے۔ ہم نے سکھایا کہ اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں مزہ اس بات میں ہے کہ دوسروں کے لیے جیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد بہت سے لوگوں نے پاکستان اور برطانیہ میں سے ہم سے رابطے کیے، سب لوگ عبداللہ تنولی کو سرا رہے ہیں۔ مجھ سے ہر کوئی پوچھتا ہے کہ اس وقت چاقو عبداللہ تنولی کو بھی لگ سکتا تھا۔ جس پر میں ان سے یہ ہی کہتی ہوں کہ موت اور تکلیف ملنے کے وقت کا تو کسی کو نہیں پتا کچھ بھی ہوسکتا تھا مگر جس طرح عبداللہ تنولی نے کیا اس پر مجھے فخر ہے۔
صرف دو، تین سیکنڈ کی بات تھی
عبداللہ تنولی کا کہنا تھا کہ میں لیسڑ چوک میں ایک دکان پر کام کرتا ہوں۔ میرا کام سیکورٹی امور کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اس دوران میں چوکنا رہ کر کام کرتا ہوں۔ کبھی دکان کے اندر اور کبھی باہر دیکھ رہا ہوتا ہوں۔ یہ سب کچھ لمحوں میں کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ وقوعہ والے روز میں دکان کے اندر نظر ڈال کر باہر دیکھ رہا تھا کہ اچانک چیخ کی آواز آئی میں نے دیکھا کہ چوک پر ایک شخص بچی پر چاقو سے حملہ کر رہا تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے ہی اس نے دو یا تین وار کیے تھے۔
عبداللہ تنولی کا کہنا تھا کہ بس اسی سیکنڈ اور لمحے ہی میں، میں اس طرف دوڑ پڑا تھا۔
سب سے پہلے اس بندے کا چاقو والا ہاتھ قابو کیا۔ بندے نے جس ہاتھ میں چاقو پکڑا ہوا تھا اس پر کک مار کر چاقو کو دور پھینکا۔ چاقو اس سے، تین، چار میٹر دور جاگرا تھا۔ یہ میرے لیے مشکل نہیں تھا کیونکہ میں گول کیپر ہوں اور ایتھلیٹ ہوں۔ اس کے بعد بازو مروڑ کر اس کو نیچے گرایا اور اس پر بیٹھ گیا تھا۔
عبداللہ تنولی کا کہنا تھا کہ اس موقع پر خون میرے ساتھ لگ گیا تھا۔ اس وقت چوک میں ہزاروں لوگ تھے۔ بچی جو کچھ دور ہی گری ہوئی تھی اس کو کچھ لوگ ان میں شاید میرے ساتھ کام کرنے والے سٹاف ممبر تھے اپنے ساتھ دکان کے اندر لے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے اس کو نیچے گرایا تو اس وقت میں نے چیخ کر کہا کوئی پولیس اور ایمبولینس کو فون کرے۔
نرس نے بچی کو طبی امداد دی
عبداللہ تنولی کا کہنا تھا کہ جب میں نے اس کو نیچے گرا لیا اور شور مچایا کہ پولیس اور ایمبولینس کو فون کیا جائے تو ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے گرے ہوئے شخص کو سر سے دبوچ لیا اور اسی طرح ایک اور شخص آگے بڑھا اور اس کی کمر پر پاؤں رکھ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا پورا فوکس اس کو قابو رکھنا تھا۔ وہ میرے نیچے سے ہل بھی نہیں پا رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں مکمل پر سکون تھا۔ بس پولیس کا انتظار تھا۔
عبداللہ تنولی کا کہنا تھا کہ کوئی 5 منٹ گزرے ہوں گے کہ پولیس پہنچ گئی اور میں نے اس شخص کو پولیس کے حوالے کیا۔ اس کے بعد پولیس کا خصوصی دستہ پہنچا اس وقت میں دکان کے اندر چلا گیا تھا جہاں پر بچی کو ایک نرس ابتدائی طبی امداد دے رہی تھی۔ اس نرس کا زیادہ ذکر نہیں ہوا ہے مگر ان کا بھی ذکر آنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پولیس کا دستہ پہنچا تو اس کے سربراہ نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ کیا اس کے کوئی اور مددگار بھی ہیں کہ نہیں جس پر میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتا اور انھوں نے مجھے شاباش دی اور کہا کہ تم بہت بہادر ہو۔
میئر لندن اور بین الاقوامی میڈیا نے کیا کہا؟
واقعہ کے بعد مئیر لندن صادق خان نے عبداللہ تنولی کو ہیرو آف لسٹر قرار دیتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا کہ ‘میں آپ کو لسٹر میں پیش آنے والے خوفناک واقعے کے تناظر میں لکھ رہا ہوں ۔ ۔ خطرناک صورتحال میں اور انتہائی بہادری میں کیے گئے آپ کے کام اور ایثار نے ایک کم عمر لڑکی کی جان بچائی۔
صادق خان نے کہا کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ بچی کا خاندان آپ کا مشکور ہوگا۔
صادق خان کا کہنا تھا کہ لندن ایک بہت بڑا اور مختلف کلچر سے وابستہ لوگوں کا ایک بڑا شہر ہے۔ آپ جیسے لوگ ہمارے اس شہر کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ آپ کو اپنے کام اور بہادری پر فخر ہونا چاہیے۔ آپ نے معاشرے ، لوگوں اور لندن پر مثبت اثرات چھوڑے ہیں۔
اس واقعہ کی تقریباً تمام بین الاقوامی اور برطانیہ کے میڈیا نے رپورٹنگ کی ہے۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 29 سالہ عبداللہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بچی کی مدد کی تھی۔
آسڑیلیا براڈ کاسٹ نے لکھا کہ وہ ہیرو سیکورٹی گارڈ جس نے 11 سالہ آسڑیلین بچی کو بچایا۔
ڈیلی میل لندن نے کہا کہ لسٹر کا وہ سیکورٹی گارڈ جس نے حملہ آور سے چاقو چھینا اس کی بہادری کا اعتراف ایک اعلیٰ سطح سرکاری تقریب میں کیا گیا ہے۔
اس وقت بھی تقریبا پوری دنیا کا میڈیا عبداللہ تنولی کے انڑویو کر رہا ہے۔
یورپ کو ایک نیا ہیرو عبداللہ تنولی کی صورت میں ملا ہے جس پر دنیا بھر کا میڈیا مختلف ڈاکومنیٹریز اور فلمیں بنا رہا ہے۔
ہمیں اپنے طالب علم پر فخر ہے
کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کے ڈائریکٹر پروفسیر امتیاز علی خان نے عبداللہ تنولی کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مذہب اسلام بھی بے گناہوں کی جان بچانے کا حکم دیتا ہے۔ عبداللہ اور ان کے خاندان نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
پروفسیر امتیاز علی خان کا کہنا تھا کہ عبداللہ تنولی ایک شاندار طالب علم ہونے کے علاوہ فلاحی اور سماجی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ وہ بہترین ایتھلیٹ اور فٹبال کا گول کیپر رہے ہیں۔ یہ ہماری یونیورسٹی کے لیے بھی خاص موقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت جلد جب عبداللہ ایبٹ آباد میں واپس گھر آئیں گے تو ہم انہیں اور ان کے خاندان کو یونیورسٹی میں بلا کر ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کریں گے۔