ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومٹاپ اسٹوری9مئی، ملوث ملزمان اور سہولت کاروں کو باغی کی حیثیت سے دیکھا...

9مئی، ملوث ملزمان اور سہولت کاروں کو باغی کی حیثیت سے دیکھا جائے گا

 قلندر تنولی

جنرل (ر) فیض حمید اور تین دیگر ریٹائرڈ فوجی افسران کو فوجی تحویل میں لیے جانے کے بعد بتایا جارہا ہے کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ پاک فوج نے 9مئی کے واقعہ کو بھلایا نہیں ہے بلکہ اس کے حوالے سے ٹھوس ثبوت اور شہادتیں اکھٹے کرنے میں اپنا وقت لیا۔ یہاں تک کہ ایک ایک تحقیق اور تفتیش کو دو سے زائد مرتبہ کیا گیا تا کہ غلطی کی گنجائش نہ رہے۔

مستند معلومات رکھنے والے تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کے مطابق اب فوج کا نظام عدل حرکت میں آ چکا ہے جس میں 9مئی میں ملوث اس سے پہلے اور بعد میں کسی بھی شریک ملزم اور سہولت کار کے ساتھ کوئی بھی رعایت نہیں ہوگی۔ سب سے پہلے فوج اپنے اندر سے سزا اور جزا کا معاملہ طے کرے گی۔ اس کے بعد سرکاری افسران اور پھر سویلینز کا نمبر آئے گا۔

فوج کا نظام عدل حرکت میں، ٹاپ سٹی تنازع میں اہم شخصیات کے نام شامل

ایک باخبر ذریعے کا کہنا ہے کہ فوج سب سے پہلے اپنے اندر موجود 9 مئی سے پہلے اور بعد کے تمام سہولت کاروں کے خلاف کورٹ مارشل کرے گی اس کے بعد معاملہ آگے بڑھے گا تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ فوج کے اندر احتساب نہیں ہوا۔ یہ طے ہوچکا ہے کہ 9 مئی واقعے میں شریک اور سہولت کاروں کو باغی کی نظر سے دیکھا جائے گا جن کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی۔

آرمی ایکٹ کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔

کچھ ذرائع کے مطابق جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی اسکینڈل کی تحقیقات ایک میجر جنرل کی سربراہی میں ہوئی تھیں۔

آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق اور سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ سے متعلق ہے۔ اگر کسی فوجی افسر یا اہلکار کے خلاف اس طرح کے الزامات ہوں اور ابتدائی تحقیقات میں ثبوت دستیاب ہوں تو پھر ان کے خلاف فوج نہ صرف کارروائی کرسکتی ہے بلکہ کورٹ مارشل کی کاروائی بھی ہوسکتی ہے۔

دشمن کی سفارش پر تمغہ شجاعت پانے والے کیپٹن احسن ملک

سیکشن 92 کے مطابق کسی بھی فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کے 6 ماہ کے بعد اگر ان کے خلاف کوئی الزام ہو تو ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی نہیں ہوسکتی تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 اور 40 اس سے مستثنیٰ ہیں۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی ہاوسنگ سوسائٹی اسکینڈل میں کارروائی ہو رہی ہے جس میں ان کا کورٹ مارشل ہوگا۔ اور یہ کورٹ مارشل باقاعدہ کورٹ آف انکوائری کے بعد کیا جارہا ہے۔

کورٹ آف انکوائری اور کورٹ مارشل کیا ہے؟َ

کسی بھی فوجی افسر پر اگر بد عنوانی اور کرپشن کے الزامات ہوں اور ابتدائی طور پر کچھ ثبوت بھی موجود ہوں تو پھر اعلیٰ کمان تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری قائم کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ کورٹ آف انکوائری بذات خود کوئی کارروائی نہیں کر سکتی البتہ اس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات اور اس کی سفارشات کی روشنی میں کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

کورٹ مارشل باقاعدہ عدالت ہوتی ہے جس میں عموماً اعلیٰ افسران کے خلاف قائم کورٹ مارشل کی سربراہی ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کرتا ہے ۔اس عدالت کے سربراہ کو پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے۔ دو ممبران کے علاوہ جج ایڈووکیٹ اور فوج کی جنرل برانچ کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے۔

کورٹ مارشل کی صورت میں 24 گھنٹے کے اندر چارج شیٹ اور الزامات کی کاپی کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں باقاعدہ گواہ پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر مقدمہ سول معاملات کا ہے تو سویلین گواہ پیش ہو سکتے ہیں۔

کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والوں کو اپنی مرضی کا وکیل اور اپنی صفائی میں گواہ پیش کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ 

اڈیالہ جیل افسر سے اہم معلومات اور انکشافات

اس سارے معاملے سے جڑے اور معلومات رکھنے والے ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر سماعت کے دوران جیل سے عمران خان کی تصویر کا لیک ہونا ایک ایسے خطرے کی گھنٹی تھی جس کے بعد تحقیقات شروع کردی گئیں کہ یہ کیسے، کیوں اور کرنے والا کون تھا۔

ذرائع کے مطابق جب اس بارے میں ابتدائی تحقیقات شروع ہوئیں تو کئی راز اور تہیں کھلتی چلی گئیں جس میں پتا چلا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل کے افسر جن کی ڈیوٹی عمران خان کی سیکورٹی پر لگائی گئی تھی کئی سہولتیں فراہم کرتے تھے اور عمران خان کے لیے رابطوں کا ذریعہ بھی تھے۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ افسر عمران خان کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک واٹس ایپ کالز کا انتظام کرتے۔ ان کے لیے پیغام رسانی کرتے تھے۔

ذرائع کے مطابق یہ پیغامات بہت سی اہم شخصیات کے تھے۔ یہ شخصیات پاکستانی اور غیر ملکی بھی تھیں اور یہ پیغامات کوئی عام نوعیت کے پیغامات نہیں بلکہ یہ مختلف منصوبے تھے ۔ اس میں کچھ ایسے پیغامات بھی تھے جن میں عمران خان ہدایات اور مشورہ مانگتے اور کچھ پیغامات میں ہدایات دیتے تھے۔

زرائع کے مطابق اس میں بہت ہی اہم عہدوں پر فائز رہنے والی شخصیات بھی شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین