ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومUncategorizedدنیا کے سب سے شاطرمجرم چارلس سوبھراج کی کہانی

دنیا کے سب سے شاطرمجرم چارلس سوبھراج کی کہانی

کئی سالوں تک دنیا بھر کی پولیس کو ناکوں چنے چبوانے والے چارلس سوبھراج کو 78 سال کی عمر میں نیپال کی جیل سے رہا کیا جارہا ہے۔ شناخت بدلنے کے ماہر اور دنیا کے کئی جیلوں کو توڑنے والے چارلس سوبھراج کی زندگی کی کہانی ایکشن اور تھریل سے بھرپور ہے۔

Charles Sobhraj leaves a New Delhi court in 1997 after he was released from prison on bail. Photo: Reuters

پاکستان سٹوریز رپورٹ

چارلس سوبھراج جس پر ایک نہیں کئی فلمیں اور کہانیاں بنیں۔ تقریبا تمام فلموں اور کہانیوں میں وہ ایک دیومالائی کردار کا حامل ولن ہوتا ہے جو پولیس کو اپنی شاطرانہ چالوں کی بدولت چکمے دے کر فرار ہوجاتا ہے اور پولیس منہ دیکھتے رہ جاتی ہے۔

دنیا کا ہر جرم کرنے والا چارلس سوبھراج جس کو پکڑنے کے لیئے ایک دور میں دنیا بھر کی پولیس نے سر جوڑ لیئے تھے۔ اس وقت نیپال کی جیل میں قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ نیپال کی سپریم کورٹ نے عمر کا تقاضا دیکھتے ہوئے مجرم کو رہا کرنے اور پندرہ روز کے اندر نیپال سے بے دخل کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ دور 70 اور 80 کا دور تھا جب ایشیا کے ممالک انڈیا، نیپال، سری لنکا وغیرہ مغربی اور امریکی سیاحوں کا خصوصی مرکز نگاہ ہوا کرتے تھے۔ چارلس سوبھراج اپنا بھیس اور شناخت بدل کر ان سیاحوں کو لوٹ لیا کرتا ہے۔ ایسی ہی ایک واردات کے دوران اس نے دو امریکی سیاحوں کا قتل کیا اور اس جرم میں اس کو نیپال میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

اس سے پہلے کہ دیکھیں چارلس سوبھراج کے سیاہ کارنامے کیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ افسانوسی شہرت کا حامل یہ مجرم ہے کون؟

چارلس سوبھراج کون ہے؟

دا سرپینٹ اور بکنی کِلر جیسے ناموں سے شہرت حاصل کرنے والے چارلس سوبھراج کی سب سے بڑی خصوصیت بھیس اور شناخت بدلنا تھا۔ یہ بھیس اور شناخت بدل کر سیاحوں اور خواتین کو نشانہ بنانا تھا۔

چارلس سوبھراج کو ’بکنی کِلر‘ اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کا شکار ہونے والی خواتین کی لاشیں اکثر بکنیز میں ملا کرتی تھیں۔

چارلس سوبھراج پر انڈیا، تھائی لینڈ، نیپال، ترکی اور ایران میں قتل کے 20 سے زیادہ الزامات عائد ہوئے لیکن 2004 سے قبل کوئی بھی سوبھراج کو قتل کا مجرم ثابت نہیں کر سکا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے جرم کا ثبوت نہیں چھوڑتا تھا۔

مگر قانون پھر قانون ہے۔ اس کو پہلے انڈیا میں گرفتار کیا گیا۔ وہاں پر اس پر الزام تھا کہ اس نے فرانسیسی سیاحوں کو زیر دیا ہے۔ اس جرم میں وہ بیس برس تک انڈیا کی جیل میں قید رہا۔

یہاں پر بھی چارلس سوبھراج کے قانون کے ساتھ کھیل کھیلا۔ انڈیا میں اس کو دس برس کی سزا ہوئی۔ مگر جب سزا پوری ہونے کا وقت آیا تو اس نے انڈیا کی جیل کو توڑ دیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کو تھائی لینڈ کی پولیس کی تحویل میں جانا ہے۔ اگر وہاں پر قتل کا الزام ثابت ہوتا تو اس کو پھانسی کی سزا ہوسکتی تھی۔

اب انڈیا کی جیل توڑی دوبارہ پکڑا تھا۔ جیل توڑنے کے جرم میں اس کو مزید دس سال کی سزا ہوئی۔

اب ہوا کیا انڈیا کی جیل میں 20 برس مکمل ہونے کے بعد 1997 میں جب سوبھراج رہا ہوا تب تک تھائی لینڈ میں اس کے خلاف وارنٹ کی معیاد ختم ہو چکی تھی۔

تھائی لینڈ کا قانون اب اس کا کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس طرح وہ تھائی لینڈ جانے سے بچ گیا۔

پاسپورٹ تبدیل کرتا تھا۔

چارلس سوبھراج کو پکڑنا اس لیے بھی مشکل سمجھا جاتا تھا کہ کہ وہ اپنی شناخت تبدیل کر کے مختلف ممالک کا سفر کیا کرتا تھا۔ وہ بڑی ہوشیاری سے ان لوگوں کے پاسپورٹ خود اپنی شناخت بدلنے کے لیے استعمال کرتا جنہیں وہ قتل کرتا تھا۔ پاسپورٹ پر تصویر بدلنا اور فرضی پاسپورٹ تیار کرنا اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔

تصویر بہ شکریہ او اے و کرائم

اس زمانے میں شاید یہ اس لیئے بھی مشکل نہیں تھا کہ وہ اتنا جدید دور نہیں تھا اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔

ماہرین کے مطابق اس کے جرائم کا طریقہ ہمیشہ ایک جیسا رہا۔ وہ سیاحوں کے درمیان خود کو جواہرات اور منشیات کے ڈیلر کے طور پر پیش کرتا تھا۔

سوبھراج پر مختلف اوقات میں قتل کے 20 سے زیادہ الزامات عائد ہوئے۔ ان تمام معاملوں میں متاثرین کو پہلے نشے کی دوا دی گئی اور پھر انھیں مارا گیا۔ چند معاملوں میں انھیں قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔

ایسے ہی دو متاثرین نیدرلینڈز کے شہری تھے۔ اس جوڑے کو تھائی لینڈ میں قتل کر کے جلا دیا گیا تھا۔ ان دونوں کی ہلاکت کی اپنے طور پر تفتیش کرنے والے ڈچ سفارتکار ہرمن کنیپنبرگ اور ان کی اہلیہ اینگلا کین نے سوبھراج کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنے اور جرائم کی تفتیش میں مختلف ممالک کے تعاون کے بین الاقوامی ادارے انٹرپول کی نظر میں یہ معاملہ لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کنیپنبرگ نے اپنی تحقیقات کے دوران سوبھراج کے خلاف جو تصاویر اور پاسپورٹز حاصل کیے تھے انھیں آخر کار نیپال میں سوبھراج کے خلاف مقدمے میں استعمال کیا گیا۔

جیل سے بار بار فرار ہونا

جتنا مشکل سوبھراج کو پکڑنا تھا، اتنا ہی مشکل اسے فرار ہونے سے روکنا بھی سمجھا جاتا تھا۔

سوبھراج یا تو پولیس کو چکما دے کر جیل سے فرار ہو جاتا یا جیل میں اہلکاروں کو رشوت دے کر تمام سہولیات وہیں فراہم کرا لیتا۔ انڈین جیل میں اس کے پاس ٹی وی، عمدہ کھانا اور سگریٹ جیسی تمام اشیا کی فراہمی وہ اہلکار یقینی بناتے تھے جنہیں مبینہ طور پر سوبھراج نے رشوت دے کر دوست بنایا ہوا تھا۔

سوبھراج انڈیا کے علاوہ افغانستان، ایران اور یونان کی جیلوں سے بھی فرار ہونے میں کامیاب رہا۔

چارلس سوبھراج کی پہلی گرفتاری

اسی دوران دلی کے اشوکا ہوٹل میں لوٹ مار کے معاملے میں سوبھراج کو دلی میں پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی سوبھراج جیل سے فرار ہونے میں کامیاب رہا تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ اپینڈکس کے درد کا بہانا کر کے وہ جیل سے ہسپتال پہنچا اور وہاں سے بھاگنے میں کامیاب رہا۔

اگلی بار 1976 میں جب وہ دوبارہ گرفتار ہوا تو دس برس بعد جیل سے بھاگنے کا کہیں زیادہ خطرناک طریقہ اختیار کیا۔

سوبھراج نے جیل میں ایک دعوت کا انعقاد کیا۔ اس دعوت میں قیدیوں کے علاوہ جیل اہلکاروں کو بھی مدعو کیا گیا۔

دعوت میں کھلائے جانے والے بسکٹ اور انگوروں میں نیند کی دوا ملا دی گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سوبھراج اور اس کے ساتھ چار مزید قیدیوں کے علاوہ باقی سبھی نڈھال ہو گئے۔

اس طرح سوبھراج اور چار قیدی جیل سے فرار ہو گئے۔ اس دور کے اخباروں کے مطابق سوبھراج کے تکبر کی اس وقت یہ حد تھی کہ جیل کے باہر دروازے پر اس نے تصویر بھی کھنچوائی۔

سوبھراج الفاظ کا کھیل بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ ریچرڈ نیول کی لکھی سوبھراج کی سوانح حیات میں انھوں نے کہا تھا ‘جب تک میرے پاس لوگوں سے بات کرنے کا موقع ہے، میں انہیں بہلا پھسلا سکتا ہوں۔’

سوبھراج کا ساتھ دینے والی خاتون اور سزا

1997 میں انڈیا کی جیل میں اپنی سزا مکمل کرنے کے بعد 2003 میں سوبھراج ایک بار پھر نیپال پہنچا، جہاں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے پہلے سوبھراج 70 کی دہائی میں اپنی اس وقت کی گرل فرینڈ مری اینڈی لیکریک کے ساتھ نیپال کا سفر کر چکا تھا۔

سوبھراج پر نیپال میں قتل کے الزامات تھے اس لیے اس بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ آخر وہ خود ہی نیپال کیوں چلا گیا اور اس کی اصل وجہ تو شاید وہ صرف خود ہی جانتا ہے۔

سوبھراج پر 28 برس قبل فرضی پاسپورٹ پر نیپال جانے اور کینیڈین شہری اور ایک امریکی خاتون کے قتل کے الزام تھے۔ سوبھراج نے تب بھی ان الزامات کو مسترد کیا، لیکن پولیس کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس معقول ثبوت موجود ہیں۔

اصل میں جب سوبھراج کی انڈیا میں گرفتاری ہوئی تب ان کی گرل فرینڈ مری اینڈی لیکریک کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

 

Photo Credit : Hindustan Times

انڈیا میں گرفتاری کے وقت مری نے جو بیان دیا تھا اس میں انھوں نے قبول کیا تھا کہ انھوں نے تھائی لینڈ میں بھی سوبھراج کی جرائم میں مدد کی

تھی۔ مری نے سوبھراج کے ساتھ فرضی پاسپورٹ پر نیپال جانے اور اس دوران ہونے والے قتل کی تفصیلات بھی پولیس کو بتائی تھیں۔

ان کے اس بیان نے نیپال میں سوبھراج کا جرم ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حالانکہ جب یہ مقدمہ چلا تب تک مری حیات نہیں تھیں۔ کینسر کے مرض کی وجہ سے 1984 میں ان کی موت ہو چکی تھی۔

بلآخر نیپال میں سنہ 2004 میں سوبھراج کو دسمبر 1975 میں کیے گئے ایک قتل کے جرم میں قید کی سزا سنائی گئی۔ اگلے چند برسوں میں اس سزا کے خلاف سوبھراج کی دو اپیلیں مسترد ہوئیں۔

سنہ 2014 میں نیپال کی ایک عدالت نے سوبھراج کو دسمبر 1975 میں کیے گئے ایک دوسرے قتل میں مزید 20 برس قید کی سزا سنائی جس کے خلاف مجرم نے کوئی اپیل نہیں کی۔

کہا جاتا ہے کہ مری سوبھراج سے بہت محبت کرتی تھیں اور تھائی لینڈ میں جب وہ مقامی خواتین کے ساتھ تعلقات قائم کرتے تھے تو وہ خود ان معاشقوں کو کاروبار کے لیے ضروری بتا کر نظر انداز کر دیا کرتی تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپال میں سزا کے دوران بھی ایک نیپالی خاتون نہیتا بسواس نے دعویٰ کیا کہ ان کی اور چارلس کی جیل میں شادی ہو گئی ہے۔ حالانکہ جیل کے اہلکار نہیتا کے ان دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔

کیا تلخ ماضی نے سوبھراج کو مجرم بنایا؟

ماضی میں شاید ان باتوں پر اتنا غور نہیں کیا جاتا ہو لیکن آج اس بات کو خاصی توجہ دی جاتی ہے کہ کسی کے مجرم بننے میں کیا اس کے حالات کا بھی ہاتھ رہا؟

سوبھراج کے معاملے میں اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ سوبھراج کے والد نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا تھا۔

سوبھراج کے دل میں اپنے والد کے خلاف بہت غصہ تھا۔ سوبھراج نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا ‘میں آپ کو اس بارے میں افسوس ظاہر کرنے پر مجبور کر دوں گا کہ آپ نے ایک والد ہونے کا فرض ادا نہیں کیا۔’

ویتنام کے شہر سائیگان میں 6 اپریل 1944 کو پیدا ہونے والے چارلس سوبھراج کی پرورش فرانس میں ہوئی تھی۔

لیکن جرائم کے لیے انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر ایشیائی ممالک کا رخ کیا۔

چارلس سوبھراج کی والدہ کا تعلق ویتنام سے تھا اور والد انڈین تھے۔ ان دنوں سائیگان پر جاپان کا قبضہ تھا۔ فرانسیسی کالونی ہونے کے سبب انھیں فرانسیسی شہریت حاصل ہو گئی۔

سوبھراج کی زندگی کی کہانی اتنی غیر معمولی ہے کہ جب 1997 میں وہ انڈیا کی جیل سے آزاد ہو کر فرانس پہنچے تو فرانس کے ایک اداکار اور پروڈیوسر نے ان سے ان کی زندگی پر فلم اور کتاب کے حقوق مبینہ طور پر ایک کروڑ پچاس لاکھ ڈالر میں خرید لیے۔

سنہ 2015 میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم ‘میں اور چارلز’ میں چارلس سوبھراج کا کردار ادا کرنے والے رندیپ ہوڈا نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ رخ خان کی فلم ‘ڈان’ کا مشہور ڈائیلاگ سوبھراج کی زندگی سے متاثر تھا: ‘ڈان کا انتظار تو 11 ملکوں کی پولیسں کر رہی ہے’۔

اس سٹوری کے لیئے مواد بی بی سی اردو سے بھی لیا گیا ہے۔ بی بی سی اردو پر پڑھنے کے لیئے کلک کریں۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین