پاکستان سٹوریز
بنگلہ دیش میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب اور پیر کی صبح لمحہ بہ لمحہ صورتحال بدلتی رہی تھی۔ سوموار کی صبح تک بنگلہ دیش میں بہت ہی کم لوگوں کو پتا تھا کہ خاتون آہن کہلانے والی شیخ حسینہ واجد کو چھپ کر فوجی ہیلی کاپیٹر کے ذریعے انڈیا فرار ہونا پڑے گا۔
پولیس کے بدترین تشدد کے باوجود اتوار کو کوٹہ مخالف تحریک اور عوامی لیگ کارکناں میں تصادم میں مزید 100 کے قریب افراد ہلاک ہوچکے تھے۔ ان ہنگاموں میں عوامی لیگ کو پولیس کا تعاون حاصل تھا لیکن عوامی لیگ کی عوامی حمایت تقریبا ختم ہوچکی تھی۔
حسینہ واجد حکومت کا خاتمہ، سارا کیا دھرا جماعت اسلامی کا ہے، بھارتی تجزیہ نگار
بنگلہ دیش میڈیا کے مطابق اتوار کی شام کو عوامی لیگ کے کچھ رہنماوں نے شیخ حسینہ واجد کو بتایا کہ حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں لیکن وزیراعظم نے ان کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے سیکورٹی فورسز کو مزید سختی کا حکم دیا۔
شیخ حسینہ کی امید زندہ تھی
پیر کی صبح ایک ڈرامائی صورتحال تھی۔ شیخ حسینہ کو سیکورٹی حکام نے بتا دیا تھا کہ عوام کا جم عفیر ڈھاکا کی طرف مارچ کر رہا ہے۔ خود ڈھاکا میں حالات قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ سیکورٹی حکام نے بتایا کہ حالات کنٹرول میں نہیں ہیں جس پر شیخ حسینہ واجد نے برہمی کا اظہار کیا۔
اصل میں شیخ حسینہ واجد دونوں آپشن کھلے رکھنا چاہتی تھیں، وہ دیکھ رہی تھیں کہ اگر سیکورٹی فورسز نے حالات کو قابو کرلیا تو وہ استعفی نہیں دیں گی اور اگر حالات قابو سے باہر ہوگئے تو وہ استعفیٰ دے دیں گی۔
شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی والدہ اتوار سے ہی استعفیٰ دینے کا سوچ رہی تھیں۔
ڈھاکا کے انتہائی باخبر صحافی نے پاکستان سٹوریز کو بتایا کہ شیخ حسینہ واجد کے لیے اقتدار چھوڑنا بہت مشکل تھا۔ اس موقع پر کئی پارٹی رہنما بھی ساتھ چھوڑ چکے تھے اور کئی رہنما ملک بھی چھوڑ کر جا چکے تھے۔
صحافی کے مطابق پیر کی صبح پولیس اور نیم سرکاری فورسز سب بے بس ہوچکے تھے۔ اس موقع پر شیخ حسینہ واجد نے فوج سے مدد طلب کرنے کا سوچا۔
صورتحال سے آگاہ ایک انتہائی باخبر شخصیت کا کہنا تھا کہہ اس وقت فوج خود شیخ حسینہ واجد سے رابطے کا سوچ رہی تھی۔
دونوں کا رابطہ ہوا تو شیخ حسینہ کو فوج نے واضح طور پر کہہ دیا کہ استعفے کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں ہے۔ استعفے کی صورت میں ان کو جانے کی اجازت دی جائے گی بلکہ محفوظ راستہ بھی دیا جائے گا۔
انڈیا ہی جانا ہے
حالات سے باخبر ایک شخصیت کے مطابق شیخ حسینہ واجد تھکی تھکی اور شکست خوردہ لگ رہی تھیں۔ انہوں نے چند منٹ سوچا اور استعفی دینے کی حامی بھر لی۔ اس کے بعد انھوں نے چند قریبی لوگوں سے رابطے کیے، مستقبل کے بارے میں سوچا اور پھر کہا کہ انڈیا ہی جانا ہے۔
استعفی کس نے لکھا اس پر کب دستخط ہوئے فوجی افسران اور حسینہ واجد کے درمیان کیا بات ہوئی یہ وہ ہی جانتے ہیں
حسینہ واجد پیر کی صبح وزیراعظم ہاؤس سے روانہ ہوئیں جہاں بنگلہ دیش ہیلی کاپیٹر ان کو لے کر ریاست تریپورہ میں اگرتلہ پہنچا۔ وہاں سے انہیں انڈین فوجی ہیلی کاپیٹر میں دہلی لے پہنچایا گیا۔
ان کی آگلی منزل فن لینڈ یا برطانیہ بتائی جا رہی ہے مگر یہ واضح نہیں ہے تاہم اس وقت وہ انڈیا کے ایک فوجی گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہیں۔
بنگلہ دیش پولیس کی معذرت
بنگلہ دیش میں انقلاب کے بعد مشتعل ہجوم نے تھانوں پر بھی حملے کیے ہیں جس کے بعد بنگلہ دیش پولیس سروس نے پورے ملک میں ہڑتال کر دی ہے اور کہا ہے کہ جب تک ہمیں مکمل تحفظ نہیں دیا جاتا اور یہ یقین دہانی نہیں ہوتی کہ پولیس کو کچھ نہیں کہا جائے گا اس وقت تک پورے ملک کی پولیس ہڑتال پر رہے گی۔
اس موقع پر جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ معصوم طلباء کے ساتھ جو ہوا وہ بہت افسوسناک ہے۔ پولیس کو مظاہرین پر گولیاں چلانے پر مجبور کیا گیا تھا۔ پولیس ایسا کرنے پر رضا مند نہیں تھی۔ حکام نے پولیس کو عوام کی نظروں میں ولن بنایا۔
پریس ریلیز کے مطابق ریاست قانون سازی کرتی اور احکامات دیتی ہے جس پر پولیس کو عمل در آمد کرنا ہوتا ہے۔
پولیس کے مطابق انقلاب کے بعد 450 سے زائد تھانوں پر حملے کیے گئے اور متعدد پولیس افسران کو بھی ہلاک کیا گیا۔
پولیس کی جانب سے ہڑتال کے بعد بنگلہ دیش میں رضاکار طلبہ اور نیم سرکاری فورسز کے دستوں نے ٹریفک، ایئرپورٹ اور تھانوں کا انتظام سنبھال لیا ہے۔