ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومUncategorizedحسینہ واجد حکومت کا خاتمہ، سارا کیا دھرا جماعت اسلامی کا ہے،...

حسینہ واجد حکومت کا خاتمہ، سارا کیا دھرا جماعت اسلامی کا ہے، بھارتی تجزیہ نگار

بھارتی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کی سابق خاتون وزیر اعظم کے انڈیا پہچنے کے بعد انڈیا کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائز اجیت ڈوول سے ملاقات کی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حسینہ واجد نے سینئر انڈین عہدیداروں کو بتایا کہ صورتحال اس حد تک بگڑ جائے گی وہ اس کا اندازہ نہیں لگا سکیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حسینہ واجد کی اگلی منزل لندن ہوگی۔

دوسری جانب بیٹے سجیب واجد نے بغاوت سے "شدید مایوس” شیخ حسینہ کی سیاست میں واپسی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ سیاست میں نہیں آئیں گی، انہوں نے خاندان کے اصرار پر ملک چھوڑا۔

سجیب نے والدہ کے دور حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’شیخ حسینہ نے اقتدار سنبھالا تو ملک ناکامی سے دوچار تھا، انہوں نے بنگلہ دیش کی تقدیر بدل کر ایشیا کا رائزنگ ٹائیگر بنا دیا۔

حسینہ واجد بھارت فرار، وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیدیا

دوسری جانب انڈیا میں اس پیشرفت کو بہت قریب سے دیکھا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا میں اس کی بھرپور اور لائیو کوریج جاری ہے، میڈیا اس صورتحال کو انڈیا کی ناکامی قرار دیا دے رہا ہے۔

بھارت کے کئی سابق وزرائے خارجہ اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں کا کنا ہے کہ اس احتجاج کے پیچھے اصل میں جماعت اسلامی اور اس کی طلباء تنظیم تھی جس نے دہائیوں تک حسینہ واجد کی حکومت کا مقابلہ کیا، جماعت اسلامی کے کئی رہنماوں کو بھارتی ایما پر حسینہ واجد حکومت کی جانب سے پھانسی دی گئی۔

بنگلہ دیش میں احتجاج ختم نہیں ہوا، حکومت کو 48 گھنٹے کی مہلت

ایک ٹیلی وژن چینل پر کہا گیا ہے کہ انڈیا نے کئی سالوں تک حسینہ واجد کو غیر مشروط مدد فراہم کی اس کے بدلے میں انڈیا چاہتا تھا کہ وہ بنگلہ دیش میں پاکستان کی حامی جماعت اسلامی کو کچل کر رکھ دیں تاکہ مستقبل کی سیاست میں ان کا کوئی کردار نہ ہو مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔

انڈین تجزیہ نگار کیپٹین الوک بنسل کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں انڈین ایجنسیاں درست تجزیہ اندازہ نہیں لگا سکیں۔ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے، اس سے انڈیا کے مفادات کو دھچکا لگے گا۔

سنیئر صحافی اور تجزیہ نگار فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ بنگلا دیشی شعور میں بہت آگے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی آمریت کے فیصلوں کو قبول نہیں کیا ، اصل میں وہ جمہوریت پسند اور جدوجہد کرنے والے ہیں۔ ان کو زیادہ عرصے تک دبایا نہیں جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین