ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومسائنسکم از کم 52گلیشیرز جھیلیں خطرناک، چترال میں تین جھیلیں سیلاب کا...

کم از کم 52گلیشیرز جھیلیں خطرناک، چترال میں تین جھیلیں سیلاب کا سبب بن سکتی ہیں

شمالی علاقہ جات میں کئی سالوں سے درجہ حرارت اوسطا تیس دگری سینٹی گریڈ سے اوپر نہیں رہا مگر اب چند سالوں سے درجہ حرارت چالیس ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔ مزید گلیشیرجھیلیں بھی تیزی کے ساتھ پیدا ہورہی ہیں۔

تصویر بشکریہ وکی پیڈیا

قلندر تنولی

شمالی علاقہ جات میں 52گلیشیر جھیلیں خطرناک قرار دے دی گی ہیں جس میں سے کم از کم چترال میں کم از کم تین گلیشیر جھیلیں انسانی جان و مال کے لیئے فوری خطرہ بن سکتی ہیں۔ مزکورہ تین جھیلیں کسی بھی وقت زیادہ بارشوں، گرمی کی شدت میں اضافہ وغیرہ کے علاوہ گلیشیر کا کوئی تودہ گرنے اور زلزلے کے سبب سے شدید سیلاب کا خدشہ بن سکتی ہیں۔

محکمہ موسمیات اسلام آباد کے مطابق سٹیلائیٹ اور ماہرین کے ٹیم کے دورے کے بعد حاصل ہونے والی معلوما ت سے انکشاف ہوتا ہے کہ چترال کے علاقے میں کم از کم تین ایسی کلئیشر جھیلیں ہیں جو کہ کسی بھی وقت شدید سیلاب کا خدشہ بن سکتی ہیں۔

جھیل ہےجو کہ لیس پور ویلی چیترال میں واقع ہے۔  (Bashka)  ان تین جھیلوں میں سب سے خطرناک بھسکہ

.جھیل ہے  (Madaklasht)دوسری نمبر پر میدیکلش

    ویلی کے قریب واقع جھیل ہے جس کو کوئی نام نہیں دیا گیا ہے ( Akari) تیسرے نمبر آکارائی

حکمہ موسمیات کے مطابق بھسکہ جھیل پر محکمہ موسمیات کے ماہرین نے محمد عدنان کی قیادت میں تحقیقاتی دورہ کیا ہے جبکہ باقی جھیلوں کے حوالے سے معلومات سیلائیٹ کے زریعے سے حاصل ہوئی ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق بھسکہ جھیل لیس پور ویلی میں آبادی سے کم از کم بیس کلو میٹر دور واقع ہے۔ ماہرین کی ایک ٹیم کم ازکم پندرہ گھنٹے پیدل سفر کرکے جھیل والے مقام پر پہنچی تھی۔ یہ انتہائی طویل اور لمبی جھیل ہے جس کا حدود اربع ایک دورے یا چند دن کے دورے سے معلوم کرنا ممکن نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق دورے کے وقت مذکورہ جھیل پرسکون تھی مگر آبادی کے انتہائی قریب واقع ہے اگر کسی بھی وجہ سے اس جھیل میں سیلاب پیدا ہوتا ہے تو اونچائی میں واقع ہونے کی وجہ سے اس جھیل کا سیلاب کا پانی انتہائی تیزی سے سفر کرئے گا اور کم از کم چھ سے آٹھ گھنٹے میں آبادی والے مقام پر پہنچ کر انتہائی تباہی پھیلائے گا۔

ماہرین کے مطابق مذکورہ جھیل دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے کوئی بھی تودہ گرنے اور زلزلے سے بھی سیلاب آسکتا ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق سیٹلائیٹ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق دوسری خطرناک جھیل میدیکلش (Madaklasht) جھیل ہے جوکہ درویش کے علاقے کے قریب ہیں۔ یہ جھیل آبادی والے علاقے سے تقریبا دس کلو میٹر دور ہے مگر مقامی آبادی کے باغات اور کھیت وغیرہ اس جھیل سے چھ کلو میٹر دوری پر ہیں۔ کسی بھی سیلاب کی صورت میں اس کا پانی تیزی سے سفر کرتے ہوئے دو سے تین گھنٹے میں باغات اور کھیت والے علاقے میں پہنچ سکتا ہے اور تین سے چار گھنٹے میں آبادی والے علاقے میں پہنچ جائے گا۔

ماہرین کے مطابق اس جھیل میں سیلاب کی صورت میں یہ اپنے ہمراہ بھاری ملبہ اور برف کے تودوں کے ہمراہ سفر کرئے گا جس سے زیادہ نقصاں کا خدشہ موجود ہے۔

تیسری انتہائی خطرناک جھیل اگری Akari ویلی کے قریب واقع ہے۔ یہ جھیل آبادی والے علاقے سے تیرہ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے اور اگر اس جھیل میں سیلاب آیا تو اس کا پانی پانچ گھنٹے کے اندر آبادی والے علاقے میں پہنچ جائے اور یہ پانی اپنے ساتھ برف کے تودے اور بھاری ملبے ساتھ لائے گا جس سے بھی نقصاں کا خدشہ زیادہ موجود ہے۔

ج ڈپٹی کمشنر چترال کے زرائع کے مطابق گزشتہ سال سے ابتک محتاط ترین اندازے کے مطابق چترال میں تعمیر نو جن میں 22 کے قریب سڑکیں پل کے علاوہ پانچ سو عارضی گھروں، پانی کی پائپ لائنیں اسکیموں وغیرہ کے لیئے کم ازکم پچاس ملین روپیہ کی ضرورت ہے۔

وزارت کلائمنٹ چینج کے ڈپٹی ڈائریکٹر اطلاعات محمد سلیم کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو گلئیشرز کے تیز رفتاری کے ساتھ پکھلنے کے خطرناک مسئلے کا سامنا ہے۔ پاکستان کے مختلف شمالی علاقہ جات کے علاقے جن میں گلگت، بلتسان، چترال وغیرہ شامل ہیں میں مجموعی طور پر پانچ ہزار چھوٹے بڑے کلئیشر موجود ہیں جو کہ اس وقت سابقہ اوسط درجہ حرارت سے زیادہ تیزی سے پکھل رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ کئی سالوں تک شمالی علاقہ جات اور بالخصوص گلیشیر والے علاقوں کا درجہ حرارت گرمیوں کے موسم میں بھی کبھی بھی تیس ڈگری سے اوپر نہیں کیا تھا مگر گزشتہ چند سالوں سے ان علاقوں کا درجہ حرارت چالیس ڈگری تک پہنچ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلستان کے بکروٹ Bagrot میں واقع گلیشیر دستیاب ریکارڈ کے مطابق 1977سے لیکر 2009تک صرف آٹھ سو میٹر کم ہوا یا پکھلا تھا۔ مگر 2009سے لیکر 2014تک اس کے پکھلنے کی رفتار انتہائی تیز ہوئی اور تین سو میٹر تک پکھل گیایا کم ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر 2010 تک خطرناک صورتحال اختیار کرنے والی مجموعی گلیشیر جھیلوں کی تعداد صرف 24ہزار تک تھی مگر اب یہ بڑھ کر تین ہزار ہوچکی ہیں اور ان میں سے 52ایسی ہیں جو کہ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر پھٹ سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کی وجہ سے حالیہ وارننگ مذکورہ علاقوں میں زیادہ بارشیں ہونے کی توقع پر جاری کی گی ہے جس سے تین مذکورہ کلئیشر جھیلیں سیلاب کا باعث بن سکتی ہیں جبکہ چترال میں گزشتہ سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے حادثات، واقعات میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے جس وجہ سے چترال کی آبادی کے قریب موجود تین گلئیشرز کو زیادہ خطرناک قرار دیا جارہا ہے۔

 

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین