پیر, جون 23, 2025
ہومپاکستانصحافی ڈائری: پرجوش، منظم اور پرامن جماعت اسلامی نے حکومت اور انتظامیہ...

صحافی ڈائری: پرجوش، منظم اور پرامن جماعت اسلامی نے حکومت اور انتظامیہ کو حیران و پریشان کردیا

 مہوش قماس خان 

گزرنے والا جمعہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس وقت اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس ریڈ الرٹ تھے۔ اضافی نفری بھی منگوا لی گئی تھی۔ انتظامیہ اور پولیس کو دو مختلف احتجاج سے نمٹنے کا خطرہ ہے ایک تحریک انصاف اور دوسرا جماعت اسلامی کے ساتھ۔

تحریک انصاف نے تو اپنا احتجاج موخر کردیا جس پر انتطامیہ اور پولیس نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو جماعت اسلامی والوں سے نمٹ لیں گے کیونکہ انتطامیہ، پولیس کے علاوہ صحافتی حلقوں کو بھی امید نہیں تھی کہ شام تک جماعت اسلامی کے کارکناں بہت بڑی تعداد میں نکل آئیں گئیں۔ حالانکہ صبح ہی سے گرفتاریاں ہورہی تھیں۔

کتنی گرفتاریان ہوئیں اس بارے میں متضاد اطلاعات ہیں مگر کیمروں نے کچھ پرجوش کارکناں کی گرفتاریوں کے مناظر فلمائے ضرور ہیں۔ صورتحال یہ تھی کہ ڈی چوک میں تو کسی کو پر مارنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ انتظامیہ اور پولیس افسران بھی مطمئیں تھے۔ مگر جیسے جیسے دوپہر کی گرمی کم ہوتی گئی صورتحال بھی بدلتی چلی گئی۔

دوپہر کے بعد شام کے وقت اطلاعات آنا شروع ہوئیں کہ جماعت اسلامی کے کارکناں کی بڑی مری روڈ پر اکھٹی ہوچکی ہے۔

پھر اطلاع ملی کہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں سے قافلے موٹر وے پر پہنچ چکے ہیں۔

صورتحال بدل سی گئی انتظامیہ اور پولیس کی دوڑیں لگ گئیں۔ ڈی چوک کے اردگرد سیکورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ مگر جماعت اسلامی اور حافظ نعیم نے توشاہد کچھ اور ہی سوچا تھا۔پہلے حافظ نعیم اسلام آباد ٹول پلازہ پہنچ گے۔ وہاں سے قیادت کرتے ہوئے زیرو پوائنٹ پہنچے اور پھر وہاں سے مری روڈ روانہ ہوئے۔

 

تحریک انصاف اس انتظار میں تھی کہ اجازت ملے مگر جماعت اسلامی کے کارکناں تمام رکارٹیں توڑ چکے تھے۔ جماعت اسلامی کے اس دھرنے کو لے کر تحریک انصاف بھی بڑی فعال رہی تحریک انصاف کے کچھ کارکناں اس دھرنے میں شریک ہوتے رہے اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر کچھ حمایت اور کچھ گلے شگوے کرتے رہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ کچھ اور سلوک کیا جاتا ہے جبکہ جماعت اسلامی کے ساتھ کچھ اور۔

ہوسکتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا ہو مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ جماعت اسلامی کی پوری قیادت حافظ نعیم اپنے کارکناں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

امیر العظیم، لیاقت بلوچ، میاں اسلم، پروفسیر ابراہیم، مشتاق احمد خان یہ سب میدان میں تھے روڈ پر تھے۔ یہ ہر صورتحال کا سامنا کرنے کو تیار تھے جس نے کارکناں کو حوصلہ دیا۔ وہ باہر نکلے تو عام لوگ بھی نکلے جس کے بعد انتظامیہ اور پولیس کے لیئے روکنا ممکن نہیں تھا۔

ویسے بھی جماعت اسلامی کی قیادت نے جہاں جرات کا مظاہرہ کیا وہاں پر جماعت اسلامی کی قیادت نے حکمت کا بھی مظاہرہ کیا۔ ڈی چوک جا کر تصادم کی راہ نہیں اپنائی بلکہ اپنے سارا زور اپنے کارکناں اور عوام کو منظم کرنے میں رکھا۔

جماعت اسلامی کے کارکناں منظم اور پر امن ہے یہ انھوں نے ثابت کیا قیادت نے تصادم سے روکا وہ رک گے۔ ایمبولینس نے راستہ مانگا راستہ بنا کر دیا۔

نماز کا وقت ہوا تو باجماعت نماز پڑھی مگر کوشش کی کہ ٹریفک چلتی رہی۔

اس صورتحال میں رات ہوئی موسم کچھ ٹھنڈا ہوا تو حافظ نعیم زیرو پوائنٹ سے لیاقت باغ پہنچ گے۔ سننے میں آرہا ہے کہ انتظامیہ نے لیاقت باغ دھرنا کی اجازت دی ہے اور جماعت اسلامی نے اس سے فائدہ اٹھا یا۔ تصادم نہیں بڑھایاا اور لیاقت باغ چلے۔

 

مگر حافظ نعیم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ڈی چوک جانا اور ضرور جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے بتایا نہیں کہ کب جائیں ویسے بھی جماعتی ہر بات ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ یہ قافلہ ڈی چوک کا رخ کرتا ہے کہ نہیں۔ ویسے جماعت اسلامی نے حکومتی مذاکرات پر یہ بھی کہا ہے کہ مزاکرات ڈی چوک ہی میں ہوں گے۔

متعلقہ خبریں

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین