اتوار, جون 22, 2025
ہومUncategorizedثانیہ زہرہ کی موت گلا گھوٹنے سے ہوئی، تشدد کے نشان نہیں...

ثانیہ زہرہ کی موت گلا گھوٹنے سے ہوئی، تشدد کے نشان نہیں ملے,ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ

ملتان پولیس کے مطابق ثانیہ زہرہ کی موت کے واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق یہ خود کشی کا واقعہ ہے۔

انسداد تشدد مرکز برائے خواتین کی انچارج منزہ بٹ نے میڈیا کو بتایا کہ وزیراعلی مریم نواز ٰ کی ہدایت پر وہ خود بھی ثانیہ زہرہ کی قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کے عمل کے دوران موجود رہیں۔ تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے اور اب فرانزک رپورٹ کا انتظار ہے۔

ڈی آئی جی ملتان صادق علی ڈوگر نے بی بی سی کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ خودکشی کا واقعہ ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے والدین کو اسی وقت پوسٹ مارٹم کرانے کا کہا تو انھوں نے ایف آئی آر درج کرانے اور پوسٹ مارٹم سے انکار کر دیا۔‘

حاملہ بیٹی کی کٹی زبان، تشدد زدہ لاش سکون نہیں لینے دیتی

’میں نے ان کے گھر جا کر ان سے کہا کہ آپ ایف آئی آر درج کرائیں لیکن فیملی نے انکار کر دیا اور لاش کو دفنا دیا گیا۔‘

ڈی آئی جی ملتان نے بتایا کہ سنیچر کے روز قبر کشائی کے بعد ثانیہ زہرہ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

پوسٹ مارٹم رپوٹ میں کیا سامنے آیا؟

’ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں چند چیزیں واضح ہیں: جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں، جسمانی اعضا میں کوئی فریکچر نہیں جبکہ موت کی وجہ گلا گھٹنا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ثانیہ کو مار کر لٹکایا گیا لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ موت کی وجہ گلا گھٹنا ثابت ہوئی ہے۔

’ہم نے معدے سے نمونے بھی لیے ہیں تاکہ پتا چل سکے کہ ثانیہ زہرہ کو مرنے سے پہلے کوئی نشہ آور چیز یا زہر تو نہیں دیا گیا تھا۔ ثانیہ کے ناخنوں کے نمونے لیے گئے ہیں، پھندے کے لیے جو رسی استعمال کی گئی، اس کی بھی جانچ کی جا رہی ہے، اگر کسی اور نے پھندا دیا تو اس کا بھی پتا چل جائے گا۔‘

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’نشہ آور چیز یا زہر دینے سے متعلق رپورٹ ایک ہفتے میں آجائے گی جبکہ ڈی این اے رپورٹ 20 دن تک آئے گی۔‘

قبل ازیں ثانیہ زہرہ کے والد سید عباس شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو قتل کر کے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس تحقیقات کر کے مجھے یہ بتائے کہ میری بیٹی کا قتل ہوا یا اس نے خود کشی کی اور اگر اس نے خود کشی بھی کی ہے تو اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔‘

انھوں نے اس بات پر بار بار زور دیتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کو قتل کیا گیا، کہا کہ ’پولیس تحقیقات کرے کہ سسرال والوں نے ایسا کیا کیا کہ میری بیٹی خودکشی پر مجبور ہو گئی۔ مجھے اپنی بیٹی کی موت کی صاف اور شفاف تحقیقات چاہیے۔‘

انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سید عباس شاہ نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب میں لڑکیوں کو کبھی تیزاب پھینک کر تو کبھی آگ لگا کر مار دیا جاتا ہے، ان تمام واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ بیٹی کے سسرال میں تحفظ کے لیے قانون بنایا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ 9 جون کو ہوا مگر بہت زیادہ احتجاج کے بعد پولیس نے ایف آئی آر 11 جون کو درج کی لیکن ابھی تک ملزم، اس کے اہلخانہ اور گھر میں سے کسی بھی ملازم تک کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب ڈی آئی جی ملتان صادق علی ڈوگر کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے پہلے ہی دن سسرال سے لوگوں کو حراست میں لیا تھا لیکن ثانیہ کے والد کی درخواست پر انھیں رہا کر دیا گیا۔

’انھوں نے کہا تھا کہ ہم نے ایف آئی آر نہیں کرانی، انھیں چھوڑ دیا جائے تو ہم نے انھیں چھوڑ دیا۔ پھر سوشل میڈیا پر اتنا شور مچا کے وہ لوگ ڈر کر کہیں بھاگ گئے ہیں لیکن ہم انھیں پکڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین