پیر, جون 23, 2025
ہومپاکستانپاکستان قیمتی پتھروں سے مالا مال مگر فائدہ کوئی اور اٹھا رہا...

پاکستان قیمتی پتھروں سے مالا مال مگر فائدہ کوئی اور اٹھا رہا ہے۔ اصلی اور نقلی پتھروں کا فرق جانیں۔

بھارت میں یہ صنعت سالانہ تیس سے چالیس ارب ڈالرپرمشتمل ہے جبکہ پاکستان میں یہ صنعت صرف چندسو ملین ڈ الرپرمشتمل ہے حلانکہ بھارت جن قیمتی پتھروں کودرآمد کرتا ہے وہ پاکستان ہی سے جاتے ہیں۔ گلگت بلستان، ،کوھستان، مانسہرہ، آزاد کشمیر، مردان، مالاکنڈ وغیرہ کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں اس وقت دنیا کے مختلف اقسا م اور سب سے زیادہ قیمتی اور بہترین پتھر پائے جاتے ہیں۔

تصویر بشکریہ عبداللہ خان

پاکسستان سٹوریر رپورٹ

پاکستان کے پہاڑی علاقے قیمتی پتھروں یا جیمز سٹون سے بھرے پڑے ہیں۔مگربدقسمتی سے آج تک اسکو پاکستان کے اندرمکمل صنعت کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا اور نہ ہی اس کو ترقی دینے کے لیئے کوئی ٹھوس اقدامات ہوئے ہیں۔ جیمز سٹوں یا قیمتی پتھروں کے کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ بھارت میں یہ صنعت سالانہ تیس سے چالیس ارب ڈالرپرمشتمل ہے جبکہ پاکستان میں یہ صنعت صرف چندسو ملین ڈ الرپرمشتمل ہے حلانکہ بھارت جن قیمتی پتھروں کودرآمد کرتا ہے وہ پاکستان ہی سے جاتے ہیں۔

بھارتی تاجر ان پتھروں کو بھارت لے جاکر ان کی کٹنگ پالش کے بعد اس کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں اور بھرپور منافع کماتے ہیں جبکہ پاکستان میں قیمتی پتھروں کی ٹیسٹنگ کے لیئے بھی کوئی لیبارٹری موجود نہیں ہے اور ان کی تلاش کا کام بھی پرانے فرسودہ نظا م سے کیا جاتا ہے۔

قیمتی پتھروں یا جیمز سٹوں کے حوالے سے مارکیٹ سے وابستہ افراد نے بتایا کہ پاکستان کے علاقوں گلگت بلستان، ،کوھستان، مانسہرہ، آزاد کشمیر، مردان، مالاکنڈ وغیرہ کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں اس وقت دنیا کے مختلف اقسا م اور سب سے زیادہ قیمتی اور بہترین پتھر پائے جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس پتھر کو نکالنے، اس کی کٹنگ اور پھر اسکو پالش کرنے سمیت سے کوئی بھی سہولت بین الاقوامی معیار کی موجود نہیں ہیں۔

مارکیٹ سے وابستہ افراد کا کہنا تھا کہ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی مارکیٹ میں اس وقت بظاہر بھارت اس مارکیٹ میں چھایا ہوا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارتی تاجر پاکستان سے یہ قیمتی پتھر اپنے ملک لے کر جاتے ہیں اور ان پتھروں کی بھارت میں تراش خراش کرتے ہیں اور پھر اس کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے۔

مارکیٹ زرائع کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس وقت تین بڑی مارکیٹیں ہیں جن میں بینکاک، تھائی لینڈ اور بیجیلم شامل ہے۔ بینکاک اورتھائی لینڈ کی مارکیٹوں کوپتھر کے شوقین مزاجوں میں دوسرے درجے کی مارکیٹ سمجھا جاتا ہے جبکہ بیلجم کی مارکیٹ کو بڑی اور مہنگی مارکیت سمجھا جاتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس وقت تھائی لینڈ اور بینکاک کی مارکیٹ میں پہچنے والا مال کا تقریبا چالیس فیصد پاکستان کا پتھرہوتا ہے اور بلیجم کی مارکیٹ میں تقریبا پچاس فیصد پتھر پاکستان کا ہوتا ہے۔

 

تصویر بشکریہ عبداللہ خان

مگر بدقسمتی سے عام کاہگ یہ نہیں جانتا کہ یہ پتھر پاکستان سے نکلا ہے بلکہ اس میں بھارت،چین،نیپال کا نام آتا ہے۔

مارکیٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ اسوقت دنیا بھر میں پتھر کے سب سے زیادہ کاہگ عرب شیوخ ہیں جو کہ مہنگا ترین اور خوبصورت ترین پتھر خریدتے ہیں اور یہ شیوخ زیادہ تر بیلجم کی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں اور وہاں سے خریداری کرتے ہیں۔ اس کے بعد امریکہ اور پھر برطانیہ کے امیرترین لوگوں کا نمبر آتا ہے۔

مارکیٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ عرب شیوخ پتھر کی خریداری کے لیئے بیلجم کی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں جبکہ باقی لوگ بینکاک اور تھائی لینڈ کی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔

مارکیٹ زرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سے نکالے جانے والے قیمتی پتھر یا جیمز سٹون کا تقریبا ساٹھ فیصد بھارت کے تاجروں کو فروخت ہوتاہے جبکہ قانونی طور پر اس کی در آمد صرف بیس فیصد ہے اور باقی بیس فیصد پاکستان کے اندر ہے۔

مارکیٹ زرائع نے دلچسپ بات بتائی کہ پاکستان کے اندر ایسے سرمایہ دار اورامیر افراد بہت کم ہیں جو کہ قیمتی پتھر خریدتے ہیں بلکہ جس بیس فیصد کاروبار کا ذکر کیاجارہا ہے یہ تحفہ تحائف کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے صنعت کار وغیرہ اکثر اوقات قیمتی پتھر تلاش کرتے رہتے ہیں اور پھر یہ پتھر حکمرانوں، اعلیٰ ترین سرکاری عہدیداروں کو تحفہ میں دیتے ہیں اور یہ روایت اتنی زیادہ مستحکم ہوچکی ہے کہ اب کئی سرمادار، صنعت کار وغیرہ اپنے حکومت کے اندر اپنے تعلقات بڑھانے کے لیئے قیمتی پتھروں کا سہارا لیتے ہیں۔

پیرا ماوئینٹ ایسوسی ایسٹ کے خرم شاہ نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قیتی پتھر کی تلاش، اس کو نکالنے اور پھر کو مارکیٹ تک پہچانے کے تمام معاملات انتہائی فرسودہ ہیں اور اس سارے معاملے میں حکومت کی کوئی بھی دلچسپی موجود نہیں ہے۔ جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا ہے۔

 

تصویر بشکریہ عبداللہ خان

اگر اس کو باقاعدہ صنعت کادرجہ دیا جائے، نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے تو پاکستان کے اس وقت بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر انتہائی قیمتی پتھر موجود ہیں مگر وہاں پر رسائی کے راستے نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں دنیا کا قمتی ترین پتھر ہے اور اس وقت اس صنعت سے صرف پورے ملک میں بیس سے 25 ہزار افراد وابستہ ہونگے اور بھارت کے مقابلے میں اس کی در آمدنہ ہونے کے برابر ہے مگر اس پر توجہ دی جائے۔

نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے انھیں سہولتیں فراہم کی جائیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کو ملک میں لایا جائے تو اس شعبہ میں کم از کم ساڑھے چار پانچ لاکھ افرادوابستہ ہوسکتے ہیں اور اتنے ہی لوگوں کو روزگار کی سہولت مل سکتی ہے۔

خرم شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر خام پتھر کا کاروبار ہوتا ہے کئی کاروباری افراد خام پتھر ہی کو غیر ملکی تاجروں کے پاس فروخت کردیتے ہیں جو ان کو مہنگے داموں بین الاقوامی مارکیٹوں میں فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح زیادہ منافع غیر ملکی تاجر کماتے ہیں۔

دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں کون کون سے پتھر پائے جاتے ہیں۔

 

تصویر بشکریہ ٹریبوں

نیلم

قیمتی پتھر نیلم کے پاکستان میں کئی مقامات پر ذخائر موجود ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آزاد کشمیر کی وادی نیلم کا نام قیمتی پتھر نیلم کی وجہ سے ہے کیونکہ اس علاقے میں یہ پتھر کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس پتھر کے ذخائر گلگت بلستان کے علاقے میں بھی موجود ہیں، اسی کی دہائی تک نیلم کی ایکسپورٹ عروج پر تھی۔ مگر نوسر بازوں نے اس میں بڑے پیمانے پر فراڈ کیئے ہیں جس وجہ سے اس کی در آمد کم ہوچکی ہے اور عالمی مارکیٹ نے دوسرے علاقوں کا رخ کرلیا ہے۔

نیلم متعدد ممالک میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سری لنکا، سیام کا جنوب مشرقی حصہ، بر، آسڑیلیا، سوئزرلینڈ، امریکہ اور کشمیر شامل ہے۔ کشمیر کا نیلم کا شمار دنیا کے بہترین نیلم میں ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کسی اونچے پہاڑ پر بجلی گرتی ہے تو اس کا گرم سیال مادہ پتھروں کی دراڑوں میں رہ جاتا ہے ایک یہ مادہ خود گرام ہوتا ہے دوسری طرف اسے زمین کی حرارت اور گرمی پہچاتی ہے۔ اور یہ سیال کھولنے کے دوران ارد گرد کے پتھروں اور نباتات اور دیگر اشیاء کو آہستہ آہستہ جذب کرتا رہتا ہے۔گرمی کے موسم جب اسپر سورج کی شعاعیں پڑتی رہتی ہیں و کچھ عرصے بعد اس میں چمک پرٹی ہے اور پھر گرد و غبار کی وہ سے سخت ہو کر چھپ جاتا ہے۔ اس پر چاروں عناصر مٹی، ہوا، پانی اور آگ اثر انداز ہوتے ہیں جن کی تاثیر سے یہ نیلم بن جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ قیمتی پتھر چاروں عناصر کا مرکب قبول کرتا ہے لہذا جو عنصر اس پر غالب آتا ہے وہ ہی رنگ اس پر چڑھتا ہے۔جدید دور کے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اصل میں نیلم کی پیدائش دور دراز پہاڑوں کے غاروں میں ہوتی ہے اور یہ اپنے اصلی مقام پیدائش میں آہنی مقناطیس کے ساتھ پائے جاتے ہیں یا پانی دریاوؤں میں بہ کر سنگ ریزوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق نیلم دنیا کا قدیم ترین پتھر ہے جو قدیم ترین دور سے استعمال ہورہا ہے۔ اس کا ذکر ہنود و یہود کی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ قدیم یونان کے اندر اس کو لوگ دیوتاوں کی نظر کیا کرتے تھے۔ دنیا بھر اور پاکستان میں سب سے زیادہ نو سر بازی نیلم کے پتھر میں ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اکثر نو سر باز بلور(کانچ)کو نیلم بنا کر فروخت کرتے ہں۔ اور کاریگری سے اس میں رنگ بھرتے ہیں جن کی شناخت کسی ماہر کے لیئے بھی ممکن نہیں ہوتی ہے۔سی طرح جعلساز بلور کے دو ٹکڑے لیکر ان ممیں رنگ بھرتے دیتے ہیں یا بلور کے ٹکڑے پر اصلی نیلم کے چھوٹے چھوٹے باریک طبقے لگا دیتے ہیں اور اصلی نیلم کی جگہ فروخت کردیتے ہیں۔

مارکیٹ کے زرائع کا کہنا تھا کہ اسی کی دہائی تک پاکستان سے نیلم کی ایکسورٹ عروج پر تھی۔ اور جعل سازی سے بھی فروخت شدہ نیلم مارکیٹ میں کھپ جاتے تھے۔ مگر جب سے جدید لیبارٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اس کے بعدیہ جعل سازی پکڑی جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق جعل سازی پکڑے کا اصل طریقہ تو اب لیبارٹری چیک ہی ہے مگر پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی لبیارٹری موجود نہیں ہے مگر کچھ طریقے ایسے ضرور موجود ہیں جن کی مدد سے اصل اور نقل کا فرق معلوم کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق نیلم کو صاف وشفاف پانی کونے سے پکڑ کر کھڑا کیا جائے تو پانی میں نیلم کے رنگ دار اور بے رنگ حصے صاف صاف دکھائی دیں گے، جس نیلم کا رنگ یکساں ہوگا اس کا پانی بھی ویسا ہی دکھائی گے گا، مصنوعی نیلم کی شناخت یہ ہے کہ کا رنگ اور میانہ کو خوب غور سے دیکھنا چاہیے کہ اگرنیلم کا پر دہ کسی قدر پتھر کا ہوگا تو ظاہر ہوجائے گا یکساں رنگ کانیلم پانی میں بھی ویسا ہی دکھائے دے گا۔

ماہرین کے مطابق نیلم کی شاخت کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اگر اس کو نیلم کو اگر سورج کی کرنوں میں رکھاجائے تو اصلی نیلم سے نیلے رنگ کی شعاعیں خارج ہوں گی۔

ماہرین کے مطابق نیلم پہننے والے سے دشمن کا غصہ کم ہوتا ہے۔ خالص نیلم پہنے سے جادو اثرنہیں کرتا،قیدسے رہائی ملتی ہے۔ گھر کو آگ سے محفوظ رھتا ہے۔ نیلم جلدی امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ شہوانی خیالات کو کم کرتا ہے۔ اس کو پہننے والے کی شہرت اور خوشحالی ملتی ہے۔ دل کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ یہ مارکیٹ میں عام دستیاب ہے اور قیمیں مناسب ہیں۔

 

تصویر بشکریہ ٹریبوں

یاقوت

قیمتی پتھر یاقوت سرخ یا سرخ پتھر (Ruby) اپنے سرخ خون نما رنگ کی وجہ سے تمام قیمتی پتھروں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ شادی کا بہترین تحفہ اور محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یاقوت سرخ کو عمومی طور پر ماڈلز، فیش ایبل خواتین اور امیر طبقہ زیوارات کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔

چند سال قبل تک میانمار کے یاقوت سرخ کو دنیا کا بہترین پتھر سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب سے گلگت بلستان کے علاقے میں اس کی دریافت ہوئی ہے اس کی کوالٹی کو بھی میانمار کی کوالٹی سے کم نہیں سمجھا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر کی نیلم ویلی میں بھی اس کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ مگر مسئلہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور دریافت کا ہے۔ یاقوت سرخ بھارت، سری لنکا،اافریقہ، افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق 1950 سے قبل دنیا بھر کے اندر یاقوت سرخ کے حوالے سے میانمار کانام کونجتا تھا۔ اور میانمار کے پتھر ہی کو سب سے قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ مگر وادی ہنزہ، گلگت بلستان کے علاقے میں اس کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد پوری دنیا کی توجہ اس جانب بھی مبذول ہوئی ہے۔

اسی طرح 2012 کے اندر وادی نیلم آزاد کشمیر میں بھی اس کے پتھر دریافت ہوئے ہیں۔ جس کے بعد میانمار کی یاقوت سرخ میں بادشاہی چیلنج ہوئی ہے اور پاکستان کے علاقوں میں سے بھی اس پتھر نے عالمی مارکیٹ کے علاوہ پاکستان میں موجود مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانی شروع کی تھی۔

یاقوت سرخ پر 1950کی دہائی سے قبل دنیا بھر کے اندر میانمارکی بادشاہی تسلیم کی جاتی تھی۔ مگر اب اس دوڑ میں وادی ہنزہ کے علاوہ افغانستان یاقوت سرخ بھی شامل ہوچکا ہے۔ماہرین کے مطابق وادی ہنزہ میں یہ قیمتی پتھر قراقرم پہاڑی سلسلے میں پائے جاتے ہیں اور ابتک کم ازکم سو کلومیٹر کے علاقے میں اس کے مختلف ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ وادی ہنزہ سے دریافت ہونے والا چھوٹا یاقوت سرخ کسی بھی طرح میانمار کے یاقوت سرخ سے کوالٹی میں کم نہیں ہے تاہم بڑے سائز کے پتھر ی کوالٹی میانمار کے پتھر سے کم ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے ذخائر میانمار سے بہت زیادہ ہیں۔ مگر اس کی دریافت کے کئی سال بعد بھی اس کو منظم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اسی طرح سال 2012 پاکستان کے لیئے انتہائی اہم تھا کہ اس دوران وادی نیلم کی پہاڑوں میں بھی یاقوت سرخ کی دریافت ہوئی ہے اور اس کو بہت بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔ مگر ابھی مناسب طور پر اس پتھر کو نکالنے اور مارکیٹ میں پہنچانے کا کوئی بھی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان کی پشاور، لاہور میں واقع جیمز اسٹونز مارکیٹوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس وقت انڈین اور افریقن یاقوت سرخ کی قیمت پاکستان اور عالمی مارکیٹ کے اندر کم ہے۔ ان کی قیمتیں کوالٹی پر انحصار کرتی ہیں جو کہ تین چار ہزار روپیہ سے شروع ہو کر دس بارہ ہزار قراط تک جاتی ہیں اور پاکستان کے اندر ان ہی کی فروخت ہوتی ہے جبکہ میانمار کا سرخ یاقوت بھی دستیاب ہے مگر مارکیٹ میں اس کی قیمت تیس ہزار روپپہ قراط سے شروع ہو کر پچاس ہزار روپیہ قراط تک جاتی ہے۔

اور اس سوال پر کہ پاکستان وادی ہنزہ کا سرخ یاقوت کی پاکستانی مارکیٹ میں قیمت کیا ہے تو تمام مارکیٹ زرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ قیمتی پتھر پاکستان میں دستیاب نہیں ہے بلکہ تمام کا تمام قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے باہر چلا جاتا ہے ۔ مارکیٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ اچھے کوالٹی کا پاکستانی سرخ یاقوت مقامی مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں ہے اورجس کوالٹی کا دستیاب ہے اس کی قیمت چار، پانچ ہزار قراط سے زیادہ نہیں ہے۔

مارکیٹ زرائع نے متفقہ طور پر بتایا کہ اچھے پاکستانی کوالٹی کا سرخ یاقوت کی قیمت اس وقت عالمی مارکیٹ میں میانمار جتنی تو نہیں ہے مگر جن پارٹیوں کے پاس دستیاب ہوتا ہے ان سے پاکستان ہی میں پندرہ سے تیس ہزار روپیہ قراط تک موقع پر خرید لیا جاتا ہے۔ مارکیٹ ذرائع اس بات پر متفق تھے کہ اکثریت سرخ یاقوت سمگل کیا جاتا ہے اور قانونی طریقے سے بہت کم ایکسپورٹ ہوتا ہے۔

مارکیٹ ذرائع کا ماننا تھا کہ پاکستان کا سرخ یاقوت بین الاقوامی مارکیٹ میں اکثر اوقات میانمار کا سرخ یاقوت کہہ کر بھی فروخت ہوتا ہے۔

مارکیٹ زرائع کا کہنا تھا کہ افغانستان کا سرخ یاقوت جو کہ حال ہی میں دریافت ہوا ہے وہ بھی کوالٹی میں میانمار کے سرخ یاقوت سے کم نہیں ہے اور چند ماہ پہلے تک اس کی اچھی خاصی تعداد افغانستان اور کوئٹہ پہچتی تھی، مگر اب آپریشن کے سبب سے یہ نہیں پہنچ رہا ہے۔

مارکیٹ زرائع کا کہنا تھا کہ افغانستان کا یاقوت سرخ کوالٹی میں بہترین ہونے کے باوجود سستا فروخت ہوتا تھا جس وجہ سے اس کی بہت زیادہ ڈیمانڈ تھی کیونکہ عالمی بیوپاری اس کو سستا خرید کر مہنگا بلکہ میانمار کا یاقوت سرخ بتا کر فروخت کرتے ہیں۔

مارکیٹ زرائع کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں سے نکلنے والے یاقوت سرخ ابھی تک عام مارکیٹ میں نہیں پہنچا ہے۔ مارکیٹ زرائع کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں یاقوت سرخ کے حوالے سے ٹھوس کام کیا جائے تو پاکستان کی در آمد میں کئی گنا زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یاقوت سرخ کو فیشن وغیرہ کے علاوہ طبعی افعال کے لیئے بھی پہنا جاتا ہے۔ فیش اور زیوارت وغیرہ کے استعمال کے لیئے تو اس کی درجہ اول کی کوالٹی ہی استعمال ہوتی ہے۔ مگر سحری اور طبعی افعال کے لیئے کسی بھی کوالٹی کا پتھر پہنا جاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ پتھر روح کو طاقت ور بناتا ہے۔ دلی مرادیں پوری کرتا ہے، وسوسے اور شیطانی خیالات دور کرتا ہے، فراخ دلی اور محبت بڑھاتا ہے۔ ازواجی زندگی کے لیئے نہایت مفید اور پرتاثیر مانا جاتا ہے، مزاج میں پھرتی اور چستی پیدا کرتا ہے، خود اعتمادی، ہمت، طاقت پیدا کرتا ہے۔ دشمنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ طبی افعال میں یہ پیٹ و معدہ کے تمام امراضِ خون کے تمام امراض، امراض قلب، ہائی او لو بلڈ پریشر سوکھے کے امراض وغیرہ میں ترین سمجھا جاتا ہے۔

 

زمرد

قیمی ترین سمجھا جانے والا زمرد ( Emerald)صوبہ خیبر پختوں خواہ کے علاقے سوات، مہمند ایجنسی، گلگت کے علاقوں کے علاوہ افغانستان کا پنچ شیر کا علاقہ خصوصی شہرت کھتا ہے۔

ماہرین کے مطابق افغانستان پنچ شیر اور سوات کے علاقے میں پایا جاننے والا زمرد دنیا کا قیمتی ترین زمرد ہے ۔ قیمتی پتھروں یا جیمز اسٹونز میں زمرد کو سب سے مہنگا سمجھا جاتا ہے اور اس وقت مختلف اداروں کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں صاف و شفاف زمرد کی قیمت 35ہزار ڈالر فی قراط تک جاتی ہے۔

مگر صاف وشفاف زمرد بہت کم دستیاب ہوتا ہے۔ جس کے بعد اس کی قیمت کوالٹی کے لحاظ سے ہوتی ہے اور مختلف کوالٹی کے زمرد کی مختلف قیمتیں ہوتی ہیں اور ان کی کوئی بھی قیمت مختص نہیں ہے بلکہ حالات اور کاہگ کے مطابق وصول کیجاتی ہے تاہم اگر صاف و شفاف زمرد دستیاب ہوتو یہ انتہائی مہنگا ہوتا ہے۔

اسی طرح وادی پنچ شیر افغانستان کے بارے میں بھی مختلف رپورٹیں موجود ہیں کہ بین الاقوامی طاقتوں نے زمرد کی د ولت سے مالا مال علاقے پنچ شیر پر سازشوں کا جال صرف اور صرف زمرد کی وجہ سے بچھایا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔

سوات کے مقامی افراد اور ماہرین کے مطابق سوات کے علاقے میں زمرد کی کانوں کی دریافت والی سوات کے دور میں 1958میں ہوئی تھیں۔ اور اس علاقے کی پاکستان کے ساتھ آئینی الحاق 1969 تک سوات کا نواب خاندان جس میں پرنس امیر زیب اور حاجی ابراہیم ان کانوں سے زمرد نکالتے اور فروخت کرتے رہے تھے۔

مگر پاکستان کے ساتھ آئینی الحاق کے بعد ان کا کنٹرول وفاقی اداروں نے سنبھال لیا تھا اور 1995میں اس کاکنٹرول صوبائی حکومت کو دے دیا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق سوات کے علاقے میں ستر ملین قراط سے زائد کے دریافت ذخائر موجود ہیں جن کو کھلی نیلامی کے زریعے سے نجی شعبے کو دیا گیا ہے۔ مگر کچھ ماہرین کے مطابق یہ صرف اندازے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ ذخائر اس سے کئی زیادہ ہوسکتے ہیں اور اور اگرجدید سائنسی طریقے اختیار کیئے جائیں تو مزید ذخائر بھی دستیاب ہوسکتے ہیں۔

اس وقت سوا ت میں سرکاری ذرائع کے مطابق کم ازکم چار مختلف پرائیوٹ کمپنیوں کو لیز پر مختلف علاقے دیئے گے ہیں۔ جن میں سے ایک لیز ہولڈر نے زمرد کی ایک کان کو 104ملین روپیہ کے عوض دس سال کی لیز کے لیئے حاصل کیا ہے اور اسی طرح دیگر کمپنیوں کو بھی لیز دی گئیں ہیں۔

لیز حاصل کرے والے افراد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھیں کان کنی میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے قوانین کے مطابق جہاں پر زمرد کے ذخائر کی نشان دہی ہوتی ہے اس علاقے کے ارد گرد 150فٹ تک مکانات وغیرہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور تعمیر شدہ مکانات وغیرہ کوبھی دوسرے مقامات پرمنتقل کیا جاتا ہے۔

مختلف ماہرین علم نجوم وغیرہ کے مطابق زمرد کا پتھر مختلف سحری فوائد رکھتا ہے۔ جس میں پانچ یا چھ قراط کا پتھر اتنے ہی سونے یا چاندنی کی انگوٹھی کے ساتھ پہننے سے دشمنوں اور حاسدوں کے دلوں میں پڑتا ہے اور وہ دشمنی سے باز آجاتے ہیں۔ دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ غم وغصہ کو دورکرکے طبیعت میں شگفتی اور زندہ دلی پیدا کرتا ہے۔

اس کے پہننے والے کو حقیقی محبت نصیب ہوتی ہے۔ زمرد کا پتھر اگر سونے سے نکل کر گر جائے تو اس کو بہت زیادہ مصیبتوں کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ ثور، سرطان اور حور برج سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیئے زمرد کو بڑا خاص سمجھا جاتا ہے۔ اور کچھ ماہرین اس کو جادو کا توڑکرنے والا پتھر بھی کہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین