صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے دستخظ کے بعد گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے پاس ہونے والا متنازع پیکا ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔
پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی بل کو صحافیوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں اور دیگر حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان سٹوریز کے سوشل میڈیا پیجز کو فالو کریں تاکہ مستند معلومات آپ تک پہچنتی رہیں۔پاکستان اسٹوریز فیس بک پاکستان اسٹوریز ایکس پاکستان اسٹوریز لنکڈان پاکستان اسٹوریز یوٹیوب پاکستان اسٹوریز انسٹاگرام
ترمیمی بل کے تحے جو بھی شخص جان بوجھ کرایسی جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے یا کسی دوسرے شخص کو سینڈ کرتا ہے جس سے معاشرے میں خوف اور بے چینی پھیلے اسے 3سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوگی۔
نئے قانون کے تحت پہلی بار سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اسلام آباد میں قائم یہ اتھارٹی تمام سوشل میڈیا ایپس اور ویب سائٹس سمیت اسٹریمنگ چینلز کی رجسٹریشن کرے گی۔
اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جب کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔
مذکورہ اتھارٹی ملکی سمیت بین الاقوامی اداروں کی معاونت بھی حاصل کرے گی اور کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کسی بھی شخص یا گروہ کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط، جھوٹی اور نفرت انگیز معلومات پر کارروائی کرے گی۔
اتھارٹی ازخود کارروائی کرنے سمیت کسی بھی شخص یا گروہ کی جانب سے تحریری شکایت ملنے کے بعد کسی بھی شخص یا گروہ کے خلاف فوری طور پر کارروائی کا آغاز کرے گی اور 24 گھنٹے کے اندر فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔