محمد نوید خان
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کابینہ اجلاس کے بعد کہا ہے کہ گزشتہ روز بلوچستان میں حملے کرنے والے شدت پسند سی پیک کو نقصاں پہنچانا چاہتے ہیں۔ شدت پسند پاکستان اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں، عزم کر لیا ہے اب دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کریں گے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سیکورٹی فورسز کو تمام وسائل مہیا کیے جائیں گے۔شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دہشت گردی میں ملوث کسی شدت پسند سے مذاکرات نہیں کرے گی۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کا وقت آپہنچا ہے، اب ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
بلوچستان میں ہونے والے شرپسندوں کے حملوں کی عالمی سطح پر مذمت جاری ہے۔ امریکا اور چین کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی حملوں کی مذمت کی ہے۔
بلوچستان کی تاریخ کا خونریز دن، دہشتگرد حملوں میں 40 افراد ہلاک، 14 اہلکار شہید
آئی ایس پی آرکے مطابق موسیٰ خیل میں شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران 14 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ 21 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں بلوچستان حکومت کے مطابق سلسلہ وار حملوں میں 38 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
بولان میں ریلوے پل پر دھماکے کے بعد ریلوے لائن معطل ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق موسی خیل میں قتل ہونے والوں میں زیادہ تر ٹرک اور مزدا ڈرائیور تھے۔
مجھے وہاں کوئی خطرہ نہیں
حملے میں شہید پنجاب کے ضلع لیّہ سے تعلق رکھنے والے محبوب حسین کے برادرِ نسبتی سجاد حسین کہتے ہیں کہ محبوب سے جب بلوچستان میں سفر کے دوران احتیاط برتنے کا کہا جاتا تو وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے وہاں کوئی خطرہ نہیں، ہر کوئی جانتا ہے میں ان کے لیے پنجاب سے ضروری چیزیں لے کر جاتا ہوں اور ان کے پھل اور سبزی پنجاب لے کر جاتا ہوں۔
چھ بچوں کے باپ محبوب حسین پیشے کے اعتبار سے ایک ڈرائیور تھے اور انھوں نے حال ہی میں قسطوں پر ایک شہزور ٹرک بھی لیا تھا۔ یہ ان بدقسمت لوگوں میں شامل تھے جنھیں 25 اگست کی رات بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں شدت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔
سجاد حسین کہتے ہیں کہ ’وہ قسطوں کو پورا کرنے کے لیے بہت محنت کرتے تھے، اکثر مناسب آرام بھی نہیں کرتے تھے۔ ساری زندگی انھوں نے ایک کمرے کے مکان میں گزار دی تھی، جب کبھی بارشیں ہوتیں تو اس کمرے میں بھی پانی بھر جاتا تھا۔‘
11 پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے والا اندھڑ گینگ کیا ہے اور کیسے وجود میں آیا؟
پنجاب سے تعلق رکھنے والے پھلوں کے ایک بیوپاری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ اس سیزن میں بلوچستان سے سیب خرید کر لاتے تھے اور اس بار انھوں نے اس کام کے لیے محبوب حسین کا ٹرک کرایے پر حاصل کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں اور اُستاد حسین بھاگ رہے تھے اور وہ (شدت پسند) پیچھے سے فائرنگ کر رہے تھے۔ میرے سامنے اُستاد محبوب حسین نیچے گر گیا، میں انھیں دیکھنے کے لیے پلٹا تو ایک شخص نے ان کی نبض دیکھ کر کہا کہ وہ مر چکے ہیں۔‘
میرا بچہ کہتا رہا امی میرے پاپا ابھی تک نہیں آئے
موسیٰ خیل میں جن بسوں کو روکا گیا ان میں سے ایک بس میں پنجاب کے علاقے پاکپتن سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ سفر کر رہی تھیں۔
خاتون نے ضلع کوہلو سے تعلق رکھنے والے صحافی دوران بلوچ کو بتایا کہ جب بس رُکی تو سب کے شناختی کارڈر لے لیے گئے اور پھر کہا گیا کہ ’پنجابی اُتر جائیں‘۔
خاتون نے کہا کہ ’جب کچھ لوگ اتر گئے اور گاڑی روانہ ہوئی تو میں نے اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ 5 افراد واپس نہیں آئے۔ آپ لوگ رُک جائیں اور ان کو بُلا لیں لیکن گاڑی نہیں رُکی، گاڑی پر فائرنگ بھی کی گئی۔‘
خاتون نے بتایا کہ وہ لوگ بس سے اُتر کر قریب ہی واقع ایک مسجد میں چلے گئے اور پوری رات وہیں گزاری، صبح 4 بجے آرمی والے آئے ، انھوں نے ہمیں نکالا۔ میرے دونوں بچوں کو بخار تھا، کسی نے اس وقت ہمارا ساتھ نہیں دیا‘
’میرا بچہ بار بار کہتا رہا کہ امی میرے پاپا ابھی تک نہیں آئے، میرے پاپا ابھی تک نہیں آئے‘
اسی بس میں بلوچستان کے ضلع دُکی سے تعلق رکھنے والے شہری عبدالشکور ناصر بھی موجود تھے جو کسی کام سے پنجاب جا رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ رات کو تقریباً پونے دس بجے ان کی بس کو مسلح افراد نے روکا اور کہا کہ شور مچائے بغیر بس میں موجود کنڈیکٹر تمام لوگوں کے شناختی کارڈ لے کر نیچے اُتر آئے۔
’اس کے بعد مسلح افراد نے کہا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد اُتر جائیں اور پھر بس سے پانچ، چھ افراد اُتر گئے۔‘
کدھر سے آ رہے ہو اور کہاں جا رہے ہو
بلوچستان میں فائرنگ کے واقعات میں پنجاب کے ضلع وہاڑی سے تعلق رکھنے والے قدیر اسلم اور شہباز بھٹی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ دونوں افراد ڈرائیور تھے اور بلوچستان سے پھل لے کر واپس آ رہے تھے۔
ان کے ہمراہ ان کے معاون (ہیلپر) محمد نصیر بھی موجود تھے جو حملے میں خوش قسمتی سے بچ گئے۔
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ قدیر اسلم مزدا ٹرک کے مالک تھے جبکہ شہباز بھٹی ان کے دوست تھے اور ساتھ ڈرائیونگ کا کام کیا کرتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم ڈیرہ غازی خان، پنجاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ دور تھے تو اس وقت ہمیں وردی میں ملبوس کچھ لوگوں نے روکا اور پوچھا کہ کدھر سے آ رہے ہو اور کہاں جا رہے ہو؟‘
ان کا کہنا تھا کہ وردی میں ملبوس افراد نے لائسنس اور شناختی کارڈ مانگا اور کہا کہ نیچے آجاؤ۔
’میں دیکھ رہا تھا کہ انھوں نے شناختی کارڈ اور لائسنس دیکھا اور ایک دم ایک شخص نے میرے دونوں استادوں پر فائرنگ کردی، جس کے بعد وہ دونوں زمین پر گر گئے تھے، میں پیچھے کھڑے ٹرک کے نیچے چھپنے میں کامیاب ہو گیا’۔
’مسلح افراد ٹرکوں کو روکتے، لائسنس اور شناختی کارڈ دیکھتے۔ کسی کو جانے دیتے اور کسی پر فائرنگ کر دیتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد انھوں نے اس مقام سے دوڑ لگا دی، جب سکیورٹی فورسز کے اہلکار وہاں آئے تو انھیں پانی پلایا گیا اور انھیں قدیر اسلم اور شہباز بھٹی کی شناخت کے لیے لے جایا گیا۔
وہ کہہ رہے تھے یہ ضرور پنجابی یا پٹھان ہوں گے
پھلوں کے ایک اور بیوپاری اسماعیل گِل بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو شدت پسندوں کے حملے سے معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ لورالائی جارہے تھے کہ اچانک انھوں نے فائرنگ کی آواز سُنی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب گاڑی تھوڑی اور آگے چلی تو کچھ اور فائر ہوئے، ڈرائیور اسلم نے بھی یہ آوازیں سنیں اس نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ گاڑی کھڑی کرو اور روڈ سائیڈ سے آگے نکل چلو۔‘
’اس موقع پر ہم نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ ہمارا تعاقب کررہے ہیں اور فائرنگ بھی کر رہے ہیں لیکن ہم رکے نہیں اور کافی آگے تک چلے گئے۔‘
اسماعیل گل بتاتے ہیں کہ وہ خود تو پنجابی بولتے ہیں مگر بلوچستان میں کاروبار کرتے ہیں، پنجاب سے مرغیاں اور انڈے بلوچستان لے کر جاتے ہیں اور وہاں سے پھل اور سبزیاں لاتے ہیں اس لیے کچھ نہ کچھ بلوچی جانتے ہیں۔
’میں نے مسلح افراد کو اونچی آواز میں بلوچی زبان میں بات کرتے ہوئے سُنا۔ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ یہ ضرور پنجابی یا پٹھان ہوں گے، بھاگ گئے ہیں۔ ان کی گاڑی کو آگ لگا دو اور پھر انھوں نے گاڑی کو آگ لگا دی تھی۔‘