محمد نوید خان
دہشتگرد تنظیم کے رکن اور لسبیلہ میں خودکش حملہ کرنے والے طیب بلوچ کے خاندان نے رواں سال اپریل میں اس لاپتہ ہونے کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
طیب بلوچ بلوچستان کے علاقے نوشکی کا رہائشی تھا اور اس کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھا، خودکش حملہ آور کا خاندان اس حوالے سے کچھ عرصے سے احتجاج بھی کر رہا تھا اور کئی احتجاجی کیمپوں میں بھی شرکت کر چکا تھا۔
خود کش بمبار ماہل بلوچ جج بننا چاہتی تھی، ذہن سازی سوشل میڈیا پر ہوئی، رپورٹ
طیب بلوچ کے حوالے سے اس کے بھائی نے کوئٹہ کے تھانہ ایئر پورٹ میں مقدمہ درج کرواتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا بھائی دبئی میں محنت مزدوری کرتا تھا جس نے 5 اپریل کو کوئٹہ واپس آنا تھا۔
بھائی کے مطابق جس وقت طیب کی پرواز نے دبئی سے کوئٹہ لینڈ کرنا تھا میں ٹریفک کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگیا ، جب ایئرپورٹ پہنچا اور انتظامیہ سے پتہ کیا تو بتایا گیا کہ سارے مسافر جا چکے ہیں۔
خودکش حملہ آور کے بھائی کے مطابق میں طیب کو تلاش کرتا رہا ، جب پتہ نہ چلا تو مقدمہ درج کروایا۔
اب بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات پر کالعدم تنظیم نے اپنے جن خود کش بمباروں کی تفصیلات جاری کی ہیں ان میں طیب بلوچ بھی شامل ہے۔
50 افراد شہید، 21شدت پسند ہلاک :ملک دشمنوں سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی، وزیر اعظم
ماہرین کا خیال ہے کہ ایئر پورٹ تاخیر سے پہنچنا اور مقدمہ وغیرہ درج کروانا یہ سب پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا۔ ممکن ہے طیب بلوچ نے اپنے خاندان کو لاعلم رکھا ہو، تحقیقاتی ادارے بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کے خاندان کو شاید زیادہ معلومات نہیں تھیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ کالعدم تنظیم سے منصوبہ بندی میں غلطی ہوئی ہے کہ وہ لاپتا قرار دیئے گئے افراد کی تفصیلات ظاہر کر رہی ہے۔ جس سے سارا راز افشا ہو چکا ہے۔ ممکنہ طور پر ایسے کئی لاپتا افراد ہوسکتے ہیں جو اس وقت کالعدم تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
تحقیقاتی اداروں کے مطابق اب تمام لاپتا افراد کے حوالے سے دوبارہ انکوائری ہوگی اور حقیقت کا پتا لگایا جائے گا۔