نورین محمد سلیم
یہ چند سال پہلے ہی کی تو بات ہے کہ ارشد ندیم اپنے کوچ رشید احمد کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اولمپک میں شرکت وائلڈ کارڈ کے زریعے نہیں بلکہ کوالیفائنگ راونڈ میں کامیاب ہو کر کریں گے اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔
ارشد ندیم کھیلوں کے شوقین افراد کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں مگر عوام کی اکثریت نہیں جانتی کہ ارشد ندیم نے کوالیفائنگ راونڈ میں کامیابی حاصل کرکے کیا کارنامہ انجام دیا تھا۔
میڈیا میں بھی بس دو چار سطریں چھپتی ہیں اور اس کے بعد ارشد ندیم اپنی محنت میں جُت جاتے ہیں۔
یہ جاپان اولپمک ہے۔ میدان سجتا ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت پاکستانی ایتھلیٹس کے مقابلے نہیں دیکھتی کہ انھیں توقع ہی نہیں کہ وہ کوئی کارگردگی دکھا سکیں گے مگر کچھ عجیب سا ہوتا ہے کہ پہلے عالمی میڈیا میں خبر چلتی ہے کہ ارشد ندیم نے اولمپک کے کولیفائی راونڈ میں کامیابی حاصل کرلی۔
نہ صرف یہ خبریں چلتی ہیں بلکہ تبصرے ہوتے ہیں کہ ارشد ندیم کی کارگردگی بتاتی ہے کہ وہ گولڈ کے لیے مضبوط امیدوار ہے۔ عالمی میڈیا سے چلتی ہوئے یہ خبریں پاکستانی میڈیا تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ پاکستانی عوام ان خبروں کو سن کر حیران وپریشان اور شسدر رہ جاتے ہیں اور سب انٹرنیٹ، ٹیلی وژن پر ارشد ندیم کو تلاش کرتے ہیں۔
اولپمک جیولن کا فائنل راونڈ ہے۔ انڈیا کے نیرج چوپڑا فیورٹ سمجھے جا رہے ہیں۔ انھوں نے بھی حیران کن کارگردگی دکھائی ہے۔ اس موقع پر نیرج چوپڑا میڈیا سے کہتے ہیں کہ ان کا مقابلہ ارشد ندیم سے ہے جس کے بعد جاپان اولپمکس کا فائنل پاکستان اور انڈیا کا بن جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے عوام جاپان اولپمکس کے فائنل راونڈ پر اپنی نظریں گاڑھ لیتے ہیں۔
راج مستری کا بیٹا ارشد ندیم جس نے 40 سال بعد پاکستان کو اولمپکس گولڈ میڈل جتوا دیا۔
دونوں ممالک کے ٹیلی وژن چینلز براہ راست نشریات شروع کر دیتے ہیں، انڈیا میں تو پھر جیولن موجود تھی مگر پاکستان کو اس کھیل کے ماہرین تلاش کرنا پڑے کچھ نے تو اپنے سپورٹس رپورٹر کے ساتھ گزارہ چلا لیا۔
مقابلہ شروع ہوتا ہے۔ نیرج چوپڑا پر اعتماد تھے۔ ارشد ندیم بھی کارگردی دکھانے کو بے چین مگر وہ دن نیرج چوپڑا کا تھا۔ ارشد ندیم نے خوب مقابلہ کیا۔ باڈی لینوگیج بتا رہی تھی کہ وہ لڑ رہا تھا۔ اپنے لیے اپنے ملک کے لیے اپنے خوابوں کے لیے مگر میدان نیرج چوپڑا نے مارا۔
ارشد ندیم کھلے دل نے نیرج چوپڑا کو مبارک باد دیتے ہیں اور انڈیا پاکستان کا میڈیا بتانا شروع کرتا ہے کہ یہ کھیل کے میدان کے حریف ہی نہیں بلکہ جگری دوست بھی ہیں۔ ارشد ندیم کہتے ہیں کہ نیرج چوپڑا کے جیتنے سے خوشی ہوئی مگر میری جنگ جاری رہے گی۔
ارشدندیم جس طرح فائیٹ کرتے ہیں وہ پاکستانیوں کے دل میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں ان کو کا حوصلہ بڑھاتا ہے اور ان کی فائیٹ کو داد دیتا ہے۔
پیرس اولمپکس، تمغے کی امید زندہ، ارشد ندیم جولین تھرو کے فائنل راونڈ میں
ماہ و سال گزرتے ہیں۔ ارشد ندیم ڈٹا ہوا ہے۔ انجری ہوتی ہے مگر پھر بھی کھڑا رہا۔ جیولن کے لیے پیسے نہیں تھے پھر بھی کھڑا رہا۔ اس لیے کھڑا رہا کہ اس نے اپنا، اپنی ماں، اپنے والدین اور پاکستان کا نام روشن کرنا تھا۔
پیرس اولپمک کا میدان سجتا ہے۔ ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا دونوں بغیر کسی مشکل کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرتے ہیں۔ نیرج چوپڑا آگے رہتے ہیں۔ دنیا پہلے ہی سے بات کررہی ہے کہ یہ مقابلہ اصل میں نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے درمیاں ہے۔ یعنی پاکستان اور انڈیا کی جنگ۔ دونوں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو تیار بھی ہیں مگر میدان کے باہر اچھے دوست بھی۔
مقابلہ شروع ہوا تو دنیا حیران رہ گئی کہ ارشد ندیم نے وہ کر دکھایا جو 100 سال سے زائد عرصے تک کوئی نہ کرسکا۔ نیرج چوپڑا نے بھی جان ماری اپنے اولمپک کی بہترین تھرو پھینکی۔
انڈیا کے اینکر شوبھنکر مشرا کے مطابق ارشد ندیم آوٹ آف دی سیلبیس تھا۔ یہ اس کا دن تھا۔
نیرج چوپڑا نے چاندنی کا تمغہ حاصل کیا۔ مگر کھلے دل سے ارشد ندیم کو مبارک باد دی۔ یہ منظر بھی بہت سے لوگوں نے دیکھا کہ جب نیرج چوپڑا انڈیا کے پرچم کے ساتھ تصاویر بنا رہے تھے تو اس وقت ارشد ندیم موقع پر نہیں تھے تو ان کو بلایا گیا۔
پاکستان اور انڈیا میں ٹیلی وژن چینلوں پر منظر بدلتے ہیں تو پاکستان اور انڈیا کے پنجاب میں ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا کے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں گھروں میں کچھ فرق نہیں۔ وہ ہی پنجاب کا روایتی دیہاتی ماحول، کھیت کھلیان، مال مویشی۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسے گھر۔
ارشد ندیم کی ماں پنجابی میں کہتی ہے کہ بیٹے کا استقبال پھولوں کے ہار کے ساتھ کروں گی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن تو ضرور جیتے گا۔
نیرج چوپڑا کی ماں کہتی ہے کہ ارشد ندیم کے جیتنے پر بھی بہت خوشی ہے۔ وہ بھی ہمارا بیٹا ہے۔ ہمارے لیئے چاندی کا تمغہ بھی سونے کا ہے۔ اس جملے نے بہت سے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا تھا۔
دنیا نے دیکھ لیا کہ پہلی اور دوسری پوزیشن پر پاکستان اور انڈیا رہے، کوئی بھی ان سے آگے نہیں نکل سکا۔