ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہوماہم خبریںمختصر المدت یادداشت کے شکار افراد کی 8 علامات اور اس کا...

مختصر المدت یادداشت کے شکار افراد کی 8 علامات اور اس کا حل

نورین محمد سلیم

یاداشت قدرت کا خوبصورت تحفہ ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کم یا مختصر مدت یاداشت والے ہوتے ہیں۔ عموما ایسا بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یاداشت میں کمی کی کیا علامات ہو سکتی ہیں؟ اس پر دنیا بھر میں بہت تحقیق ہو رہی ہے۔ بہت سی علامات اور عادات سامنے آ رہی ہیں۔

حال ہی میں کی جانے والی بین الاقوامی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ مختصر مدت کی یاداشت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں 8 علامات پائی جاتی ہیں یا وہ ان عادات اپنا لیتے ہیں۔ جو ان میں کسی کو شناخت کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ عادات کون سی ہیں۔

تکرار یا ایک چیز کو بار بار دہرانا

تحقیق میں تجربوں کے بعد بتایا گیا ہے کہ مختصر مدت کی یاداشت کے مسائل سے دوچار افراد میں ایک عام عادت تکرار ہے۔ ان کی محفل میں موجود لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں وہ پہلے ہی پوچھے گئے سوال کی تکرار کرتے ہیں یا ایک ہی بات کو بار بار دہراتے ہیں۔ ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ ضرورت کے تحت کرتے ہیں۔

اکثر اوقات ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو باتیں بھولنے لگتے ہیں انہیں یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے لیے وہ باتوں کو دہراتے یا تکرار کرتے ہیں۔ تکرار ان لوگوں کے لیے سوچنے کی مشق کی طرح ہے جو یادداشت کے مسائل سے گزر رہے ہیں۔ اس سے ان کی ذہنی تناؤ میں کمی ہوتی ہے اور انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھول رہے ہیں وہ انہیں یاد رہے گا۔

روزمرہ کے اشیاء کو کھو دینا

شاید آپ کے خاندان یا گھر میں کوئی ایسا فرد ہوگا جو ہر وقت اپنی اشیاء کھو دیتا ہے اور پھر ایسے افراد شور مچا دیتے ہیں کہ ان کی اشیاء کدھر گئیں۔ عینک، گھڑی، کتاب، اخبار، تسبیح پاس ہی ہوگی مگر تلاش سارے گھر میں جاری ہوگی۔
کیا آپ کے آس پاس ایسا کوئی ہے؟

مجھے اس کا تجربہ تب ہوا جب میری والدہ بڑھاپے کی طرف جانے لگیں تو اکثر اوقات وہ اپنی چابیاں یا چشمہ اکثر اوقات کھو دیتی ہیں۔ پہلے ہم نے سوچا کہ یہ بڑھاپے کی عام بھولنے کی عادت ہے۔ لیکن جب یہ ہر روز کی بات ہو گئی تو ہم نے سمجھا کہ یہ کچھ اور ہی ہے۔ وہ اپنی کھوئی ہوئی اشیا گھنٹوں تلاش کرتیں یا پھر ہم ان کی مدد کرتے۔

اور آخر کار انہیں اپنی گم کی ہوئی اشیاء باورچی خانے، ٹیبل، کرسی وغیرہ میں مل جاتی تھیں۔ میں نے سمجھا کہ یہ عام بھولنے کی عادت نہیں ہے بلکہ یہ مختصر مدت کی یادداشت کے مسائل کی جانب اشارہ ہے.

روزمرہ کے کاموں میں مشکلات

بہت سے لوگ یقین نہیں کریں گے اور یہ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آئے گا کہ کوئی اپنے جوتے کی لیس باندھنا بھول جائیں یا ایسی ریسیپی بھول جائیں جسے درجنوں بار بنایا ہو۔ لیکن مختصر مدت کی یادداشت کے مسائل سے دوچار افراد کے لیے یہ حقیقت ہے۔

انسان کے دماغ میں ایک حصہ ہوتا ہے جسے ہپوکیمپس کہتے ہیں، جو سیکھنے اور یادداشت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جب یہ حصہ عمر یا بیماری کے باعث متاثر ہوتا ہے تو اس کیلئے متعلقہ کاموں کو یاد رکھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے، خواہ وہ کام پہلے آسان تھے۔

اگر آپ دیکھیں کہ کوئی ایسے کاموں میں مشکل کا سامنا کر رہا ہے جو پہلے اس کے لیے آسان تھے تو یہ ایک اشارہ ہو سکتا ہے کہ وہ مختصر مدت کی یادداشت کے مسائل سے دوچار ہے.

بات چیت میں مشکل

ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا۔ گپیں لگانا کسی سنجیدہ موضوع پر بات کرنا یہ بہت اہم ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بات چیت ایک اہم حصہ ہے۔ لیکن جو لوگ مختصر مدت کی یادداشت کے مسائل سے دوچار ہیں، ان کے لیے یہ ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ انہیں بات چیت کے تسلسل کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے، وہ اکثر معلومات کو دہرائے جانے کے لیے پوچھتے ہیں یا جملے کے درمیان ہی اپنا خیال بھول جاتے ہیں۔

یہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ توجہ نہیں دے رہے۔ بلکہ یہ ان کے دماغ کی کوشش ہے کہ وہ معلومات کو سمجھیں اور پروسس کریں۔ یہ ایک غیر ارادی عادت ہے جو اکثر نظرانداز ہو جاتی ہے لیکن یہ یادداشت کے مسائل کی جانب ایک اہم اشارہ ہو سکتا ہے.

فیصلوں میں مشکلات

میرے تجربے میں ہے کہ اگر میں اپنی والدہ سے پوچھوں کہ کیا ناشتہ کرنا ہے۔ کیا کھانا ہے یا کیا پکانا ہے تو وہ بے چین اور پریشان ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات غصہ کرنے لگتی ہیں۔

اصل میں روزمرہ کے معمول میں خاص قسم کا سکون ہوتا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو مختصر مدت کی یاداشت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ جب انہیں سادہ فیصلے کرنے ہوتے ہیں، جیسے کہ کیا پہننا ہے یا ناشتے میں کیا کھانا ہے، تو وہ بے چین اور پریشان ہو جاتے ہیں۔

یہ فیصلے نہ کر پانے کی بات نہیں ہے بلکہ یہ بھول جانے کا خوف لاشعور میں ہوتا ہے کہ ایک فیصلہ کروں گا اور بعد میں اسے یاد نہیں رکھ سکوں گز۔ یہ ایک ایسی کوشش ہے جو ہر روز کی فیصلوں کو مشکل کام بنا دیتی ہے۔

ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس صورت حال میں ان کے ساتھ ہمدردی کریں اور انہیں محسوس کیے بغیر ان کی مدد کریں۔ ہم یہ یاد رکھیں کہ یہ ان کا فیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہر روز کی ایک لڑائی ہے جو وہ لڑ رہے ہیں.

بلاوجہ موڈ میں تبدیلیاں

کیا آپ کے قریب رہنے والا کوئی فرد، اپ کے انکل یا کوئی جن کے بارے میں آپ کی رائے تھی کہ یہ تو شاندار شخصیت کے مالک ہیں۔ یہ تو ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے تھے۔ مگر اب وہ یک دم ہی چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ غصہ کرنے لگتے ہیں۔ ایسا روز روز نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی بھی ہوتا ہے۔

پھر یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ وہ کس بات پر پریشان ہوتے ہیں کون سی بات بری لگتی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔ بس اچانک ہی موڈ بگڑ گیا اور موڈ کی تبدیلی ہر ایک کو حیران کردیتی ہے۔ اصل میں یہ موڈ کی تبدیلیاں ان کی یادداشت کے مسائل سے جڑی ہوتی ہیں۔

یہ بھول جانے کا خوف یا یادداشت نہ رہنے کی وجہ سے ہونے والی فرسٹریشن جذباتی پن یا موڈ کی تبدیلیوں کے طور پر ظاہر ہو سکتی ہے جس کو نظر انداز کرنا یا غلط سمجھنا آسان ہے۔ لیکن اس کے یادداشت کے مسائل سے منسلک ہونے کو سمجھنا ہمیں صبر اور ہمدردی سے رد عمل دینے میں مدد کرتا ہے، نہ کہ حیرانی یا پریشانی سے.

نئے ماحول میں ڈھلنا مشکل

نئے ماحول میں ڈھلنا ہر کسی کے لیے چیلنجنگ ہو سکتا ہے، لیکن جو لوگ مختصر مدت کی یادداشت کے مسائل سے دوچار ہیں، ان کے لیے یہ خاص طور پر مشکل ہو سکتا ہے۔ انہیں نئے راستوں کو یاد رکھنا مشکل ہو سکتا ہے یا انہیں غیرمعمولی مقامات پر پریشانی ہو سکتی ہے۔

عموماً یہ راستے بھول جاتے ہیں۔ نئی جگہیں بھی بھول جاتے ہیں۔ نیا ماحول اچھا نہیں لگتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہمارے دماغ یاداشت پر انحصار کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے ماحول میں گھل مل سکیں۔ مگر جب یادداشت متاثر ہوتی ہے، تو نئے حالات یا مقامات میں ڈھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اس میں انہیں دباؤ یا جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے، انہیں رہنمائی اور یقین دلائیں کہ وہ محفوظ ہیں۔

یادداشت کے لیے سہارے تلاش کرنا

اگر کوئی ایسا فرد ہو جو سادہ سے کاموں کے لیے الارم سیٹ کرتا ہو۔ اپنی یادداشت کے لیے نوٹس وغیرہ بھی لیتا ہو، فون یا ایپس کو یاد دہانی کے لیے استعمال کرتا ہو تو پھر یہ اشارے ہیں کہ کوئی مختصر مدت کی یاداشت کے مسائل سے نپٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یاداشت کی مدد کے لیے اشیاء یا دیگر زرائع کا استعمال کرنا صرف منظم رہنے یا ضرورت کے لئے نہیں بلکہ یہ ان کے لیے ایک زندگی کی لائن ہے۔ جس میں انھیں اپنی یادداشت پر بھروسا نہیں ہے اور اس کے لیے وہ مختلف زرائع استعمال کرتے ہیں۔

بڑھتی عمر کے ساتھ اگر یہ مسائل سامنے آرہے ہیں تو پھر سمجھ لیں کہ وقت کے ساتھ یہ مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کہ ان کا حل نہیں ہے۔ اس کا حل موجود ہے۔ جن کا تذکرہ ذیل میں کیا س رہا ہے ۔

اس کا حل کیا کیا ہوسکتا ہے؟

جسمانی سرگرمی پورے جسم، بشمول دماغ میں خون کی روانی کو بڑھاتی ہے۔ یہ آپ کی یادداشت کو تیز رکھنے میں مدد کر سکتی ہے۔

صحت مند بالغوں کے لیے، کم از کم 150 منٹ کی صحت مند سرگرمی جیسے کہ تیز چہل قدمی، یا ہفتے میں 75 منٹ ڈورنا شامل ہے۔ انتہائی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ سرگرمی ہفتے بھر میں تقسیم ہو۔ اگر آپ کے پاس مکمل ورک آوٹ کا وقت نہیں ہے تو دن میں صرف 10 منٹ کی چہل قدمی کی کوشش کریں.

جس طرح جسمانی سرگرمی جسم اور دماغ کے لیے اہم ہے وہیں دماغی سرگرمی بھی دماغ کو فٹ رکھتی ہے۔ دماغی سرگرمی یادداشت کے نقصاں کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ جس کے لیے ذہنی آزمائش پر مبنی کھیل کھیلے جاسکتے ہیں۔ نئی کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں اور تفریح کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح محفل لگائیں۔ دوستوں سے ملیں، گپیں لگائیں اور رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزاریں۔

یاداشت کو بہتر بنانے کے لیے گھر کو منظم رکھا جا سکتا ہے۔ میٹنگز میں نوٹس بنائے جائیں۔ اپنی ضروری اشیاء کو مخصوص مقام پر رکھیں۔ اپنی نیند پوری کریں بلکہ لازمی پر سکون اور اچھی نیند لیں اور اپنی خوراک پر توجہ دیں۔

نوٹ: یہ مضمون مفاد عامہ کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ اگر آپ اپ کو لگے کہ آپ مختصر مدت یا کم یاداشت کا شکار ہو رہے ہیں تو آپ کو فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین