محمد نوید خان
امریکی انتخابات کے نتائج تقریبا مکمل ہوچکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فتح کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں نے انھیں غیر معمولی مینڈیٹ دیا ہے اور اب وہ امریکہ کو پھر سے عظیم تر بنائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ارب پتی ہیں اور ساتھ میں انتہائی رنگین مزاج بھی۔ ان کی رنگین مزاجی کی داستانیں میڈیا کی شہہ سرخیاں بھی بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار تنازعات جن کے باعث بہت سے ماہرین، میڈیا ہاوسز توقع نہیں کر رہے تھے کہ 78 سالہ ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر بنیں گے۔ مگر ایسا ہوچکا ہے۔
2016 میں جب ٹرمپ نے پہلی مرتبہ صدارتی اتنخاب لڑ رہے تھے تو ان کی متنازعہ سمجھی جانے والی انتخابی مہم کے حوالے سے بہت سے سوالا ت تھے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ٹرمپ کو رپبلکن پارٹی اپنا صدارتی امیدوار نامزد کریں گے بھی یا نہیں۔ مگر نہ صرف یہ کہ رپبلکن پارٹی نے ڈیموکریٹ کی فیورٹ سمجھی جانے والے ہیلری کلنٹن کے خلاف انھیں اپنا امیدوار نامزد کیا بلکہ انھوں نے انتخاب بھی جیت لیا۔
ایسا صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کہ ان کی متازعہ امور پر مبنی انتخابی مہم تھی۔ جس نے امریکیوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف راغب کیا۔
اس کے بعد کے 4 سال تنازعات کا دور سمجھے جاتے رہے اور اگلے الیکشن میں شکست کھا گئے مگر آج حیران کن طور پر وہ ایک بار پھر جیت گے۔
ٹرمپ کے سفر پر ایک نظر
ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق امریکہ میں جائیداد کے کاروبار سے منسلک خاندان سے ہے۔ ان کے والد فریڈ ٹرمپ اس کاروبار سے منسلک تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنے بہن بھائیوں میں نمبر چوتھا ہے۔ یہ ارب پتی خاندان ہے مگر اس کے باوجود ٹرمپ نے اپنے والد کی کمپنیوں میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ ٹرمپ بچپن ہی سے ایک مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ ان کے والد ان سے نالاں تھے جس وجہ سے بچپن میں جب ٹرمپ کے والد کو ان کے کمرے سے چاقو ملا تو انھوں نے ٹرمپ کو اصلاحی سکول بھیج دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا بچپن شرارتی ہی نہیں بلکہ وہ کھیلوں میں نمایاں تھے۔ بیس بال ٹیم کے کپتان رہے اور انھیں کچھ اعزازت بھی ملے۔ یونیورسٹی میں کاروبار کی تعلیم حاصل کی اور پھر ایک تبدیلی ہوئی کہ ان کے والد یہ سمجھنے لگے کہ ان کا اربوں کا بنس سنبھالنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ سب سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں۔
شراب نوشی اور سگریٹ چھوڑ دی
ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے بھائی فریڈ ٹرمپ اپنے والد کا کاروبار سنبھال رہے تھے۔ مگر انھیں کاروبار سے زیادہ پائلٹ بننے میں دلچسپی تھی۔ کثرت شراب اورسگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ 43 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
ٹرمپ نے کئی مرتبہ کہا کہ بھائی کی قبل از وقت موت نے انھیں شراب نوشی اور سگریٹ نوشی ترک کرنے پر مجبور کیا تھا۔ یہاں پر ایک انقلابی تبدیلی ہوئی۔
انھوں نے اپنے والد کے ساتھ بات کی اور والد نے قرضہ لے کر جائیداد کا کاروبار شروع کیا۔ یہ کاروبار اتنا کامیاب ہوا کہ وہ والد کے کاروبار میں شریک ہوگئے اور اس کمپنی کے تمام اختیارات ان کے پاس آگئے ، یوں انھوں نے ٹرمپ آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔
ٹرمپ آرگنائزیشن چھا گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے والد 1999میں انتقا کر گئے۔ مگر اس وقت تک ٹرمپ اس کاروبار کو کہاں سے کہاں پہنچا چکے تھے، وہ زمین جائیداد اور رہائشی عمارتوں کے کاروبار کے سلطان بن چکے تھے۔ کئی بڑے منصوبے کامیابی سے چل رہے تھے۔ کامیابی ٹرمپ کا مقدر بن رہی تھی۔ ایک کے بعد ایک دیو قامت عمارتیں جو کہ ان کے خاندانی نام پر ہوتی تھیں۔
صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ بھارت، ترکی، فلپائن میں بھی ٹرمپ ٹاورز موجود ہیں۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔ ایسا ہی نہیں بلکہ انھوں نے شو بزنس کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور بہت کمیاب رہے۔ کئی حسن کے مقابلوں کے مالک ہیں۔
بین الاقوامی ادارے بتاتے ہیں کہ ٹرمپ کے اثاثوں کی مالیت تقریبا 4 ارب ڈالر ہے۔
ٹرمپ کی زندگی اور کاروبار کے تنازعات
ایسا نہیں کہ ٹرمپ کی زندگی میں صرف کامیابیاں ہی ہیں۔ کئی کاروبار اور ذاتی تنازعات ہیں۔ کم از کم 6 مواقع پر انھوں نے خود کو دیوالیہ ظاہر کیا ہے۔ مگر اس کے بعد دوبارہ اٹھے۔ کئی ناکام منصوبے بھی ہیں جس میں ٹرمپ یونیورسٹی جیسا منصوبہ بھی شامل ہے۔
ٹرمپ کے معاشقوں کا بڑا چرچہ ہے۔ تین مرتبہ شادی کی۔ ان کی ایک شادی ایوانا زیلنیکووا سے ہوئی جو کہ ایک چیک ماڈل اور ایتھلیٹ تھیں۔ ان کا تعلق جمہوریہ چیک سے ہے۔
ٹرمپ کی شادیاں ہمیشہ اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔ 1990 میں ان کی اہلیہ نے ان سے طلاق لی یہ بہت مہنگی طلاق تھی۔ اہلیہ کی طلاق لینے کی وجہ ان کا ایک معاشقہ بتایا جاتا تھا۔ اس موقع پر عدالت میں سابقہ اہلیہ نے گھریلو تشدد کے الزمات بھی عائد کیے۔
90 کی دہائی میں اداکارہ مارلا میپلز سے شادی کی جس سے ایک بیٹی ہے۔یہ شادی نوے ہی کی دہائی کے اختتام تک ختم ہوگئی۔ موجودہ اہلیہ میلانیا سے 2005 میں شادی کی جن سے ایک بیٹا ہے۔
مگر صرف قانونی شادیوں ہی نے شہرت نہیں پائی بلکہ غیر ازدواجی تعلقات کے الزامات بھی عائد ہوئے۔ حال ہی میں جیوری نے جنسی ہراسانی پر ٹرمپ کو بھاری جرمانے کیے۔اس فیصلے کے خلاف وہ اپیل کرچکے ہیں۔
فحش فلموں کی اداکارہ اسٹارمی کے ساتھ ان کا تنازعہ بھی مشہور ہوچکا جس میں حقائق چھپانے پر ٹرمپ کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔
سیاسی سفر کا آغاز
ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ ہی سیاست میں داخل ہونے کے پروگرام بناتے رہے اور سوچتے رہے ہیں۔ اس صدی کے آغاز پر وہ ریفارم پارٹی کی طرف سے صدراتی امیدوار بننے پر غور کر رہے تھے۔ مگر اپنا ارادہ تبدیل کیا اور پھر ریبلکن پارٹی میں شامل ہوئے۔
1987 میں ٹرمپ صدارتی امیدوار بننے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ سنہ 2000 کے انتخابات سے قبل وہ ریفارم پارٹی کی جانب سے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے پر غور کر رہے تھے اور پھر سنہ 2012 میں رپبلکن پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے بھی انھوں نے الیکشن میں حصہ لینے کا سوچا۔
اس کے لیے مسلسل کام کرتے رہے اور سال 2015 میں انھوں نے باقاعدہ اپنی صدارتی مہم یا صدارتی امیدوار بننے کی مہم کا آغاز کیا۔ انھوں نے کچھ انتہائی متازعہ سمجھے جانے والے نعرے لگائے کہ جس میں اپنے پڑوسی ملک میکسیکو پر منشیات سمگل کرنے اور جرائم پیشہ افراد کو امریکہ بھیجنے کے الزامات عائد کیے۔
وہ بار بار کہتے رہے کہ وہ میسیکو پر پابندیاں عائد کریں گے اور سبق سکھائیں گے۔ ان کا نعرہ تھا امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیں گے۔
پہلا صدارتی دور
ٹرمپ صدر بنے تو وائٹ ہاوس تنازعات کی خبروں میں گھر چکا تھا۔ شروع ہی میں ٹرمپ نے ایسے فیصلے کیے کہ دنیا حیران و پریشان رہ گئی۔ انھوں نے اہم ماحولیاتی، موسمی تبدیلیوں کے معاہدوں کو منسوخ کر دیا۔ یہ ہی نہیں کئی تجارتی معاہدے منسوخ کیے۔
سب سے بڑھ کر 7 اسلامی ممالک کے لوگوں کے ویزوں پر پابندی لگا دی۔ چین سے تجارتی جنگ شروع کردی۔ خارجہ پالیسی میں بھی ایسے یو ٹرن لیے کہ لگتا تھا کہ ٹرمپ کسی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ مشرقی وسطیٰ سے تعلقات کی نوعیت بدل دی۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم پر بھی تحقیقات ہوتی رہیں جس میں روس کا نام لیا جاتا تھا۔ کئی افراد پر فرد جرم عائد ہوئی مگر الزام ثابت نہیں ہوا۔
یہ سب کچھ نا قابل برداشت ہوا تو ٹرمپ کو مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ الزام تھا کہ انھوں نے غیر ملکی حکومت پر اپنے حریف بائیڈن کے خلاف ثبوت تلاش کرنے پر دباؤ ڈالا۔
اب کورونا کا دور تھا۔ امریکی بڑی تعداد میں مر رہے تھے۔ ٹرمپ کی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس موقع پر ٹرمپ کے متنازعہ بیانات آئے۔
اب ہوا یہ کہ ٹرمپ خود بھی کورونا سے متاثر ہوئے ور انھیں اپنی انتخابی مہم میں وقفہ کرنا پڑا۔
گزشتہ صدارتی انتخاب میں نئے ریکارڈ بنے۔ ٹرمپ نے ریکارڈ ووٹ لیے، اتنے امریکہ کی تاریخ میں کسی اور نے صدارتی انتخاب میں نہیں لیئے تھے۔ مگر ٹرمپ شکست کھا گئے تھے۔ ٹرمپ نے شکست قبول کرنے سے انکار کیا اور انتخابات کے خلاف مہم چلا دی۔ عدالتوں میں گئے مگر عدالتوں نے ٹرمپ کے مخالف فیصلے دیئے۔
پھر ایسا ہوا جو سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے اپنے مداحوں کو دارالحکومت واشنگٹن میں کیپیٹل پر اکھٹا کیا۔ یہ اجتماع ہنگامے میں بدل گیا۔ ان کے خلاف کارروائی اور مواخذے ہوئے مگر وہ پھر بچ گئے۔
کیپیٹل ہل واقعہ پر امریکی میڈیا اور رائے عامہ مکمل طور پر ٹرمپ کے مخالف ہوگئے۔ ان کے حامی مخالف ہوگئے۔ مگر ٹرمپ نے نہیں سیکھا یہاں تک کہ کئی سالوں سے روایت کے مطابق جیتنے والے صدر کے تقریب حلف برداری میں بھی شرکت نہیں کی۔ مگر ان کے حامیوں میں زیادہ کمی نہیں دیکھی گئی۔
توقعات کر برعکس ٹرمپ ایک بار پھر صدارتی امیدوار بنے۔ ان پر درجنوں مقدمات تھے۔ جولائی میں ان کو قتل کرنے کی کوشش ہوئی۔ ان کا کان زخمی ہوا۔ یہ واقعہ ان کی مقبولیت کا سبب بن گیا۔
واضح نظر آرہا تھا کہ جوبائیڈن ٹرمپ کی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے۔ امیدوار بدلا گیا کاملا ہیرس نے بھرپور مہم چلائی۔ وہ سروے اور جائزے میں آگے تھیں۔ مگر 2016 کی کہانی دہرائی گئی اور ٹرمپ جیت گے۔
وائٹ ہاوس ایک بار پھر ٹرمپ کا منتظر ہے۔ اب ایک اور تاریخ لکھی جانی ہے دیکھتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟