قلندر تنولی
گزشتہ روز ہم نے بڑی مشکل سے 20 کلو آٹے کا تھیلا اور 5 کلو گھی حاصل کیا ورنہ ہم لوگ خوردنی تیل استعمال کرتے ہیں۔ اب علاقے کی اکثر دکانوں پر دالیں، چاول، آٹا، چائے، پتی، دودھ دستیاب نہیں ہے جب کہ میڈیکل سٹورز پر ادویات کے شیلف بھی خالی ہیں۔
یہ کہنا ہے ضلع کرم کے رہائشی عمران کا جو سماجی رہنما اور خرلاچی کے علاقے کے رہائشی ہیں۔ یہ علاقہ پاک افغان بارڈر پر واقع اور پاکستان کا آخری گاؤں ہے جہاں سے افغانستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ اس علاقے میں کم ازکم 160 گھرانے ہیں۔
عمران بتاتے ہیں کہ 12 اکتوبر واقعہ جس میں ضلع کرم کے علاقے مقبل میں ایک قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں 16 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد اب تک پشاور سے ضلع کرم تک ہائی وے مکمل طور پر بند ہے۔
واضح رہے کہ ضلع کرم کا علاقہ کئی دہائیوں سے فرقہ ورانہ فسادات سے متاثر ہے۔ کچھ سال کے وقفے کے بعد گزشتہ دو سالوں سے اس علاقے میں ایک بار پر وقفے وقفے سے فرقہ ورانہ فسادات ہو رہے ہیں جس میں کئی لوگ اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
ضلع کرم میں قبائل اور علاقوں کی تقسیم بھی فرقے کی بنیادوں پر ہے۔ 12 اکتوبر کے وقوعہ کے بعد ٹریفک کی بندش کو 10 روز گزرنے پر ضلع کرم میں مقامی لوگوں کے مطابق مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔
مریض، غریب سب پریشان حال
عمران کا کہنا تھا کہ جب روڈوں پر آمد ورفت نہیں ہوگی۔ مارکیٹوں اور بازاروں میں سپلائی نہیں ہوگی تو پھر اشیاء خور و نوش، ادویات اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قلت کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ یہ سب اشیاء ضلع کرم میں عموماً پشاور، کوھاٹ اور دیگر علاقوں سے لائی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں نے تو کسی نہ کسی طرح گزارہ کرلیا ہے مگر سوچیں کہ وہ لوگ جو دیہاڑی دار ہیں کماتے اور کھاتے ہیں ان کا کیا بن رہا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے اپنے گھر میں اشیاء خور و نوش اور بنیادی استعمال کی اشیاء کم ہو چکی ہیں۔ ہم ان کے بغیر کسی نہ کسی طرح گزارہ کر رہے ہیں۔
عمران کا کہنا تھا کہ ضلع کرم کا علاقہ غریب لوگوں پر مشتمل ہے یہ لوگ اپنے گھر میں چند کلو چاول، دالیں اور آٹا رکھتے ہیں۔ اب ان اشیاء کی سپلائی بند ہے تو اکثر کریانہ سٹور خالی ہو چکے ہیں تو یہ لوگ کدھر جائیں۔ پتا نہیں یہ غریب لوگ کہاں سے کھا رہے ہوں گے۔
نصیر علی کا تعلق بھی ضلع کرم کے نواحی علاقے سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری والدہ شوگر کی مریضہ ہیں اور ان کو شوگر کی ایک گولی لازمی دی جاتی ہے۔ مگر گزشتہ تین روز سے یہ گولی دستیاب نہیں ہے، میڈیکل سٹورز والے بتاتے ہیں آمد ورفت ہو نہیں رہی ہے جس کی وجہ سے گولی دستیاب نہیں۔
اس صورتحال پر ہم لوگ انتہائی تشویش میں مبتلا ہیں۔ صورتحال صرف یہ ہی نہیں ہے بلکہ مریض رل رہے ہیں۔ جنازے آبائی علاقوں تک پہنچائے نہیں جا پا رہے۔ ہم انتہائی پریشان ہیں۔
عمران کہتے ہیں کہ میرے نوٹس میں ہے کہ ڈسڑکٹ ہپستال سے کچھ مریضوں کو پشاور ریفر کیا گیا ہے مگر آمد و رفت بند ہونے کی وجہ سے مریض ابھی تک پشاور نہیں پہنچائے جا سکے ہیں۔ انتہائی تشویشناک حالت میں موجود مریضوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہوگا اس کے بارے میں سوچنا بھی خوفناک ہے۔
آمد ورفت شروع کی جائے ورنہ احتجاج
ضلع کرم کے ایک اور سیاسی و سماجی رہنما مبشر حسین کا کہنا تھا کہ لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہے۔ 10 روز بعد اب اکثریتی آبادی فاقے کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ سکول، کالج سب بند پڑے ہیں مگر کسی بھی جگہ پر ہماری شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
مبشر حسین کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ضلع کرم کے طول و عرض میں اس وقت بات چل رہی ہے کہ اگر آمد و رفت بحال نہیں ہوتی اور کانوائے سسٹم جس میں کانوائے کی حفاظت پر سیکورٹی اہلکار مامور ہوتے ہیں شروع نہیں کیا جاتا تو پھر لوگ اپنے اپنے علاقوں میں روڈوں پر کل دھرنا دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع کرم دور دراز علاقوں پر مشتمل بھی ہے۔ کئی مسافر اس وقت پشاور، کوئٹہ، ہنگو، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ہوٹلوں میں رہائش پزیر ہے۔ اسی طرح کئی شادیاں ملتوی ہوچکی ہیں۔
بس اب روڈوں کو محفوظ بنایا جائے اور محفوظ آمد ورفت شروع کی جائے ورنہ احتجاج مختلف علاقوں میں شروع ہوجائے گا۔