سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ معطل کر دیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے جامعہ کراچی کی ان فئیر مینز کمیٹی کی سفارشات پر سنڈیکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخ کر دی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ کمیٹی کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ، عدالت نے فریقین سے 3 ہفتوں میں تفصیلی جواب طلب کرلیا ہے۔
دوران سماعت عدالت نے کراچی یونیورسٹی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کی ڈگری سے متعلق مزید اقدامات کرنے سے بھی روک دیا۔
31 اگست کو کراچی یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کو غلط قرار دے کر منسوخ کرنے کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے جامعہ کے ترجمان نے بتایا تھا ہے کہ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ اجلاس میں ان فیئر مینرز یعنی غیر منصفانہ معاملات کی نگرانی کرنے والی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ڈگری کو منسوخ کیا جائے جس میں ڈگری اور انرولمنٹ کی منسوخی بھی شامل ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے مطابق سنڈیکیٹ نے ڈگری کو غلط قرار دے کر منسوخ کیا ہے البتہ اس کو جعلی قرار نہیں دیا گیا ہے۔
ان بیانات سے عام قاری اور شہری الجھن کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان سٹوریز نے اس معاملے کو مختلف ماہرین اور حالات و واقعات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
جسٹس طارق محمو جہانگیری کون ہیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس طارق محمود جہانگیری کا تعلق ضلع مانسہرہ سے اور ان کی تاریخ پیدائش 1965 جولائی ہے۔
ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کرنے بعد اسلام آباد منتقل ہوگئے اور پھر قانون کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اسلام آباد بار ایوسی ایشن کی رکینت 1992 میں حاصل کی اور سال 2008 میں سرپم کورٹ کے وکیل بنے۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری قانون کی پریکٹس کے دوران سال 2017 میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ ڈپٹی اٹارنی جنرل، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل قومی احتساب بیورو کے فرائض ادا کرنے کے علاوہ کئی سال تک ملک کے سب سے نامور سمجھی جانے والی قائداعظم یونورسٹی اسلام آباد میں استاد کے فرائض بھی ادا کرتے رہے۔
انھیں 30 دسمبر 2020 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا جج تعنیات کیا گیا تھا جس کے بعد وہ اب تک وہ اسی عدالت میں جج کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈگری معاملہ ہے کیا؟
چند ماہ قبل کراچی یونیورسٹی میں باضابطہ طور پر دائر کردہ درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس طارق محمود جہانگیری کا تعلیمی ریکارڈ فراہم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست کے جواب میں بتایا گیا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے قانون کی ڈگری 1991 میں حاصل کی اور ان کا انرولمنٹ نمبر 5968 اور 7124 تھا۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات منظر عام پر آئی کہ 1987 میں امتیاز احمد نامی شخص نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا او اس کا انرولمنٹ نمبر بھی 5968 تھا۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات نے کراچی یونیورسٹی کے رجسڑار کو خط لکھا اور کہا کراچی یونیورسٹی ڈگری پروگرام کے لیے ایک ہی انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ایک طالب علم کو ایک ہی ڈگری پروگرام میں داخلے کے دوران 2 انرولمنٹ نمبرز جاری کیے گئے ہوں۔
شعبہ امتحانات کی طرف سے کہا گیا کہ جاری کردہ مارک شیٹ غلط ہے۔ اس پر شکوک پائے جاتے ہیں، اس کے بعد معاملہ کمیٹی کے سپرد ہوتا ہے۔
ان فیئر مینز کمیٹی کے اجلاس
جب یہ خط و کتابت ہوتی ہے تو اس کے بعد یونیورسٹی قوانین کے مطابق معاملہ ‘ان فیئر مینز’ کمیٹی میں زیر غور آتا ہے۔ جس کے ممبران میں یونویرسٹی کے سنیئر پروفیسرز اور افسران ہوتے ہیں۔
ان فیئر مینز کمیٹی کا اجلاس 17 اگست کو طلب کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جس کے حوالے سے کارروائی کرنی ہو اس کو کمیٹی کے سامنے طلب کر کے صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔ بظاہر طارق محمود جہانگیری کو کمیٹی میں طلب نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی نوٹس جاری کیا۔
کمیٹی اپنی رپورٹ میں کہتی ہے کہ اسلامیہ کالج درحقیقت کراچی یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے۔ کالج ریکارڈ کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کبھی بھی یہاں ریگولر طالب علم نہیں رہے لیکن انھوں نے 1988، 1989 اور 1991 میں ایل ایل بی کے امتحانات دیئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کے رزلٹ کو ایک پرچے میں ناجائز ذرائع استعمال کرنے پر روکا گیا تھا۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری سمیت 61 امیدواروں کو ناجائز ذرائع استعمال کی شکایت پر کراچی یونیورسٹی سے کسی بھی الحاق شدہ کالج کو داخلہ دینے اور امتحان دینے سے روک دیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 1989میں جسٹس طارق محمود جہانگیری ایک نئے انرولمنٹ نمبر کے امتحان میں بیٹھے اور ان کا انرولمنٹ نمبر وہ پایا گیا جو اسلامیہ کالج کے ایک اور ریگولر طالب علم کو الاٹ کیا گیا تھا۔
پورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران بھی ناجائز ذرائع استعمال کرنے کے الزام میں ان کا نتیجہ روک لیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1991 میں جسٹس طارق محموددوبارہ ایل ایل بی پارٹ ٹو کے امتحان میں شریک ہوئے اس مرتبہ بھی ان کا انرولمنٹ نیا تھا۔۔
رپورٹ کے مطابق 1992میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کا نتیجہ منسوخ کر کے انہیں 3 سال کے لیے امتحانات میں شرکت سے روک دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے پاس جسٹس طارق محمود جہانگیری پر عائد کردہ پابندی کے خاتمے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے جس پر کمیٹی نے یہ معاملہ حتمی فیصلے کے لیئے سنڈیکیٹ کو بھجوا دیا۔
سینڈیکیٹ اجلاس میں حتمی فیصلہ ہوا
معاملہ جب جامعہ کراچی کی 22 رکنی سنڈیکیٹ میں پیش ہوا تو اس میں ‘ان فیئر مینز’ کمیٹی کی جانب سے مرتب کی گئی سفارشات کی منظوری دی گئی جس میں ڈگری اور انرولمنٹ کی منسوخی شامل ہے۔
سنڈیکیٹ کے اجلاس سے جامعہ کراچی کے اسٹنٹ پروفسیر ڈاکٹر ریاض نے اختلاف کیا اور دعویٰ کیا کہ اجلاس سے قبل انھیں پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا تھا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں پولیس نے پورا دن تھانے میں بٹھائے رکھا جس کا مقصد اجلاس میں شریک ہونے سے روکنا تھا۔
سنڈیکٹ اجلاس میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔ ڈگری معاملے پر ابھی تک کسی او رسنڈیکٹ رکن کے اختلاف کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی یونیورسٹی نے بتایا ہے کہ اس اجلاس میں فیصلہ اکثریت، کتنی اکثریت یا متفقہ طور پر ہوا ہے۔
ڈاکٹر ریاض کے مطابق یہ سیاسی معاملہ ہے جس میں یونیورسٹی کو آلہ کار بنایا جارہا ہے تاہم سنڈیکیٹ کے ممبران نے اس کی تردید کی ہے۔
سنڈیکٹ ممبران کے مطابق فیصلہ دباؤ کے تحت نہیں ہوا بلکہ دستاویزات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔