نورین محمد سلیم
پاکستان جیسے ملک میں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے وہاں دماغی یا نفسیاتی صحت پر کون توجہ دیتا ہے؟ پھر اس کے ساتھ تعلیم اور شعور کی کمی اکثر اوقات نفیساتی مسائل کے شکار افراد کی زندگیاں اجیرن بنا دیتی ہے۔ نفسیاتی مسائل کے شکار افراد نہ صرف خود ایک مشکل ترین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ بھی انتہائی مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔
حال ہی میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ذہنی امراض میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں 8 کروڑ سے زائد افراد نفیساتی مسائل میں مبتلا ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان سٹوریز مختلف نفسیاتی مسائل کے حوالے سے مستند ماہرین کی آراء سے مختلف رپورٹیں مرتب کرے گا جس میں قارئین کو نفسیاتی مسائل سے نمٹنے اور دوسروں کی مدد کرنے میں آسانی ہوگی۔
ڈپریشن کی علامات کیا ہیں؟
ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ڈپریشن کسی کو بھی اور کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ اگر آپ خود محسوس کرتے ہیں یا اپ کے اردگرد موجود کوئی بھی فرد بے چین رہتا ہے، کام میں دل نہیں لگتا، اداسی اور بے چینی رہتی ہے، بیراز بیراز سا ہوتا ہے، گھبراہٹ اور بے بسی کا شکار ہوتا ہے تو یہ ڈپریشن ہوسکتا ہے۔
ڈپریشن کا شکار فرد کو عموماً نیند ٹھیک سے نہیں آتی۔ بھوک نہیں لگتی۔ وزن میں کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ توجہ یاداشت کم ہوجاتی ہے۔ اکثر اوقات خود کشی کی سوچیں آتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سر جبڑوں میں درد، ہاضمے کے مسائل، سانس کی خرابی جیسے مسائل کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔
اکثر لوگ ڈپریشن کو مرض نہیں سمجھتے مگر یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس پر بروقت توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ توجہ کیسے دی جاسکتی ہے اس پر بات کرتے ہیں مگر پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ڈپریشن ہوتا کیوں ہے؟
ڈپریشن کیوں ہوتا ہے؟
ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر نوید کے مطابق ڈپریشن کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ موروثی مسئلہ جو ماں باپ سے بچوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اگر بہن بھائی قریبی رشتہ دار متاثر ہیں تو پھر اس خاندان کا ہر فرد اس کا شکارہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حالات زندگی، مالی مسائل، زندگی کے مختلف مسائل گھٹن زدہ حالات، ذہنی دباؤ جیسے مسائل بھی ڈپریشن میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ مہلک اور دائمی امراض میں مبتلا افراد بھی ڈپریشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نوید کے مطابق کچھ ادوایات کے سائید افیکٹس بھی ڈپریشن میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مگر آج کے جدید دور میں زندگی کے بڑھتے ہوئے مسائل اس کی بڑی وجہ سمجھے جا رہے ہیں۔
ڈپریشن پر کس طرح قابو پایا جائے۔
ڈاکٹر نوید کہتے ہیں کہ ڈپر یشن پر قابو پانے کے لیے لائف اسٹائل میں تبدیلی اہم ہے۔ اگر ڈپریشن کی کم نوعیت کا ہے تو اس صورت میں مناسب خوراک، مکمل نیند اور باقاعدگی سے واک، ورزش کے علاوہ پر فضا مقامات کی سیاحت کے ساتھ بھی اس پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ اس کے لیے ان معمولات کو معمول بنانا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن اگر ایسا ہو رہا ہے کہ روز مرہ کے معاملات نہیں چل رہے۔ رویے وغیرہ میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے تو پھر اس کے لیے لازمی طورپر ڈاکٹر، بھلے وہ ماہر نفسیات ہو یا جنرل فزیشن کی مدد حاصل کرنا پڑے گی۔
ڈاکٹر نوید خان کا کہنا تھا کہ سائیکالوجسٹ بھی مددگار ہوتے ہیں جو کہ سائیکو تھراپی، کونسلنگ یا سائیکالوجیکل سیشن وغیرہ کے زریعے علاج جبکہ سائیکیٹرسٹس کے بعد دوائی تجویز کرتے ہیں۔یہ علاج ایک ساتھ بھی چل سکتے ہیں اور الگ الگ بھی۔
اظہار کرنے سے مدد ملتی ہے
ڈاکٹر نوید کے مطابق دیکھا جا رہا ہے کہ جب ڈپریشن کا شکار افراد مختلف ذرائع جیسے آج کل سوشل میڈیا پر اظہار کرتے ہیں تو ان کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے جب ان کو اپنے احساسات کا اظہار کرنے پر مثبت رد عمل ملتا ہے تو یہ چیز ان کو بہتری کی طرف لے کر جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈپریشن کا شکار افراد ہمدری اور مدد کے مستحق ہوتے ہیں۔ اب ہمارے معاشرے میں دو، تین طرح کے رویے سامنے آ رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ڈپریشن تو کچھ نہیں نماز، عبادت میں دل لگاؤ اچھے ہو جاؤ گے۔ اس سے بہتری تو ممکن ہے مگر یہ مناسب علاج نہیں۔ اگر بخار میں مبتلا فرد سے کہا جائے کہ نماز پڑھو اور دوائی نہ کھاؤ اور علاج نہ کرواو بہتر ہو جاؤ گے۔ ایسا ممکن نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا رویہ منفی رد عمل ہے۔ ایسے فرد کو کچھ ایسے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں کہ اب اس کو تو ساری زندگی نشہ آور ادوایات کھانا پڑیں گی۔ اس کو تو اب اسی طرح زندگی گزارنی ہے۔ ایسا اور ویسا۔۔۔
ڈاکٹر نوید کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈپریشن ایک مکمل میڈیکل کنڈیشن ہوتی ہے۔ جیسے کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے سر میں درد ہو اسی طرح کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کو ڈپریشن ہو۔ ڈپریشن کا شکار افراد معاشرے، خاندان، دوستوں کی مدد کے مستحق ہوتے ہیں۔
ڈپریشن کے شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟
ڈاکٹر نوید کہتے ہیں کہ ایسے افراد کو پہلے احساس دلانا ہوگا کہ اپ ان کے اچھے دوست، ساتھی ہیں اور ان کی دل کی بات کو سن سکتے ہیں۔ جب وہ یہ یقین کر لیں کہ آپ اس کے حقیقی ہمدرد ہیں تو پھر ان سے پوچھیں کہ ان کو کیا مشکل پیش آ رہی ہے، انہیں اظہار کا موقع دیں اور ان کی بات کو سنجیدگی اور توجہ سے سنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ڈپریشن کا شکار فرد اپنے مسائل بتائے تو اس کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ میں اس کو قائل کریں کہ وہ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اچھا تو یہ ہی ہے کہ وہ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کرنے خود جائیں اور اگر وہ آمادہ نہ ہوں تو یہ کام ڈپریشن کا شکار فرد کے قریبی رشتہ دار کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نوید کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہیں تو آپ خود جا کر کسی معالج سے مشورہ کر سکتے ہیں اور پوچھ سکتے ہیں کہ اس صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ علامات بتا کر مناسب مشورہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سب سے اہم یہ ہے کہ مریض کو مدد فراہم کریں کہ وہ صحت مند سرگرمیاں اختیار کرے۔ پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں کی سیر کرنا، واک کرنا، کوئی کھیل کھیلنا اور ورزش کرنا یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جو ڈپریشن کے مسائل کو بڑی حد تک قابو کرسکتی ہیں۔