محمد نوید خان
‘ہم نے حسن شگری کی لاش کے ٹو کے جس خطرناک مقام سے لائی ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ وہاں سے 120 افراد اس کی لاش پر سے گزر کر آگے چوٹی کی طرف گئے تھے مگر ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کی لاش کو آگے پیچھے کرتے۔ ہم اس خطرناک جگہ سے ان کی لاش نکال کر لائے ہیں’
یہ براڈ پیک پر حادثے کا شکار ہو کر جاں بحق ہونے والے ممتاز کوہ پیما مراد سدپارہ کا آخری وائیٹس نوٹ ہے۔
اسی وائس نوٹ میں وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں اب تک 8 ہزار 200 میٹر سے کسی نے بھی ہم سے پہلے کسی کی بھی لاش نیچے نہیں لائی ، یہ کام ہم نے کیا ہے۔
کے ٹو کے ڈیتھ زون سے ایک سال بعد حسن کی لاش واپس لانے والے پاکستانی کوہ پیما
وہ وائس نوٹ میں کہتے ہیں کہ پچھلے سال ہم ہی نے 7ہزار سے زائد بلندی سے ایک اور لاش لائی تھی۔
مراد سد پارہ کا تعلق اسکردو کے کوہ پیمائی کے لیے مشہور علاقے سدپارہ سے تھا جس نے کئی شہرت یافتہ کوہ پیماوں کو جنم دیا۔ مراد سد پارہ اس سے پہلے کے ٹو، ناگا پربت پر مختلف مہمات سر کر چکے تھے ۔ وہ مختلف بین الاقومی کوہ پیماوں کے لیے مددگار کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔
براڈ پیک پر غیر ملکی کوہ پیماؤں کی مدد کرنے گئے تھے
مراد سد پارہ 8ہزار میٹر کی بلند ایک اور چوٹی پر جانے سے پہلے کے ٹو پر مصروف تھے۔ مراد سد پارہ اس ٹیم کا حصہ تھے جو کے ٹو پر اس وقت ممتاز خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی کی قیادت میں صفائی مہم چلا رہی تھی جبکہ اس کے ساتھ انھوں نے کے ٹو پر انتہائی خطرناک مہم مکمل کی تھی جس میں وہ گزشتہ سال کے ٹو کے بوٹل نیک جس کو موت کی گھاٹی بھی کہا جاتا ہے پر انتقال کرجانے والے حسن شگری کی لاش نیچے لائے تھے۔
نائلہ کیانی بتاتی ہیں اصل میں وہ ایک غیر ملکی کوہ پیما کی مدد کرنے کے لیے براڈ پیک کے کیمپ تھری تک گئے تھے ، دراصل وہ خود بھی براڈ پیک کو سر کرنا چاہتے تھے۔ یہ کے ٹو صفائی مہم اور حسن شگری کی لاش کو نیچے لانے والی ٹیم کے لیڈر تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسم کی خرابی کی باعث غیر ملکی کوہ پیما اپنی مہم کو چھوڑ کر واپس آرہے تھے۔ مراد سدپارہ بھی واپس ان کے ساتھ واپس آگئے تھے۔ مراد نے انھیں سامان وغیرہ نیچے لانے اور دیگر معاملات میں مدد فراہم کی تھی۔
نائلہ کیانی کا کہنا تھا کہ پچھلے کچھ دنوں سے وہاں پر موسم بہت خراب تھا۔ اس حادثے کے حوالے سے مجھے جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق یہ نیچے کی طرف آ رہے تھے تو اوپر سے بڑا پتھر ان کے سر پر لگا ، پتھر اتنا بڑا تھا کہ ہیلمنٹ کے استعمال کے باوجود بھی انھیں چوٹ لگی۔
دو دن تک اوپر موجود رہے
نائیلہ کیانی کے مطابق درست وقت توعلم نہیں اور نہ ہی یہ پتہ چل سکا کہ ان کی موت کب ہوئی اور وہ کتنی دیر بے ہوش رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پتھر لگنے سے بے ہوش ہوگئے تھے۔ یہ حادثہ ہفتے کے روز 10 اگست کو پیش آیا ، توقع ہے کہ آج شام تک ہیلی کاپٹر کی مدد سے ان کی لاش کو واپس لایا جا سکتا ہے۔
شاندار کوہ پیما تھے
الپائن کلب آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری نے مراد سد پارہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہ صرف ایک شاندار کوہ پیما تھے بلکہ انھوں نے کئی ایسی مہمات میں بھی حصہ لیا جو یادگار اور تاریخی تھیں۔
مراد سدپارہ نے حسن شگری کی لاش نیچے لانے کے بعد بی بی سی کو انڑویو دیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ حسن شگری کی لاش کو نیچے لانے کا فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے کیا تھا۔
مراد سد پارہ دوسروں کی مدد کرتے کرتے پہاڑ پر ہی اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ پہاڑ ان کی زندگی کا عشق تھا۔ ان پہاڑوں سے وہ محبت کرتے تھے۔