پاکستان اسٹوریز
سپریم کورٹ حکمران جماعتوں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے مخصوص نشستیں واپس سنی اتحاد کونسل کو دینے کا فیصلہ دے دیا۔
کئی دن تک جاری رہنے والی سماعتوں کے بعد 9 جولائی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا تھا؟
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن نے 4 ایک کی اکثریت سے کیے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی کیونکہ انہوں نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، انہیں متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
بعد ازاں 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
آج جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
فل کورٹ میں کون کون سے ججز شامل تھے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی سماعت کرنے والے 13 رکنی فل کورٹ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بتایا کہ فیصلہ 8/5 کے تناسب سے دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلہ دیا۔
فیصلے کی مخالفت کرنے والے ججز نے کیا لکھا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ انتخابی نشان واپس لینا سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق 80 آزاد ارکان میں 39 ارکان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں، باقی 41 ارکان 15 دن میں واضح کریں کہ انہوں نے کس جماعت سے الیکشن لڑا؟ الیکشن کمیشن تصدیق کر کے متعلقہ ارکان کو سیاسی جماعت کا رکن قرار دے، پی ٹی آئی مخصوص سیٹوں کی 15دنوں میں الیکشن کمیشن کو فہرست دے، فیصلہ کا اطلاق تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ قومی اسمبلی ، پنجاب ، سندھ اور پختونخواہ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں، پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اترتی ہے، انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان پی ٹی آئی کا حلف نامہ دیں، جن امیدواروں نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ پی ٹِی آئی سے ہیں انہیں کسی اور جماعت کا یا آزاد امیدوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ امیدوار جنہوں نے سرٹیفکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے، پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں اور وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس امین الدین خان نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرتے ہیں، جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ میں بھی جسٹس امین الدین خان کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کرتا ہوں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع نہیں کرائی، آئین نے متناسب نمائندگی کا تصور دیا ہے، سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی، آئین کی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین پاکستان کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی۔