پانی میں کسی بھی قسم کی آلائش وغیرہ ہوگی تو پھر کیلا بیمار ہوگا اور کینسر وغیرہ کا شکار ہوجائے گاجوکہ اب ہورہا ہے۔ اس سال بھی اگست کے ماہ میں بارشوں کے سبب سے کیلا کی پیدوار متاثر ہوئی ہے۔۔ 2011 سروے کے مطابق مجموعی طو رپر 2011 میں کیلا 19765 ایکڑ زمین پر کاشت کیا گیا تھا اور اس سال اس کی مجموعی پیدوار 76042میٹرک ٹن تھی جو کہ 2010 کے مقابلے میں تقریبا 26.34فیصد رقبہ کے لحاظ اور پیدوار کے لحاظ سے 32فیصد کم تھی۔
پاکستان سٹوریز رپورٹ
غذا او رخوراک کے لیئے انتہائی اہم سمھجا جانے والے کیلا کے کاشت کاروں او رکاروباری افراد شدید مسائل کا شکار ہیں۔ در آمد کیلا کے علاوہ موسمی تبدیلی بھی کیلے کی فصل پر اثر انداز ہورہی ہے۔ کیلا سندھ کے طول عرض میں کاشت ہوتا ہے اور گرمی سردی میں پیدوار دیتا ہے۔ مگرزمین میں موجود کچھ مضر صحت نمکیات پیدا ہونے سے کیلا کی فصل متاثر ہورہی ہے۔
اس سال بھی اگست کے ماہ میں بارشوں کے سبب سے کیلا کی پیدوار متاثر ہوئی ہے۔ کیلا کے کاروبار سے وابستہ افراد نے باہر سے کیلا منگوانے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے پاکستان میں کیلا کی صنعت سخت متاثر ہورہی ہے۔
کاشت کاروں نے مناسب قیتمیں نہ ملنے پر اس سال بڑی تعداد میں ٹماٹروں کی کاشت شروع کررکھی ہے۔ جس سے آئندہ سیزن کے اندر کیلا کی مقامی طور پر قلت پیدا ہوسکتی ہے۔
کیلا کے کاروبار سے منسلک محمد لیاقت نامی کاروباری شخص جو کہ سندھ میں ڈوگری کے علاقے میں کیلا کے کاروبار سے منسلک ہیں نے بتایا کہ گزشتہ گرمیوں کے موسم میں ڈوگری کے علاقے میں کیلا کی پیدوار ٹھیک تھی، بلکہ پورے علاقے ہی میں بہتر تھی۔ ڈوگری کے علاقے سے روزانہ بیس سے 25ٹرک کیلا کے منڈی میں آتے تھے اور وہاں سے آسانی کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں فروخت ہوجاتے تھے۔
مگر بھارت سے در آمد کرنے کی وجہ سے کاشت کاروں کو مناسب نرخ نہیں ملتے جس کے وہ حق دار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سردیوں کے آغازہی کے ساتھ کیلا کی پیدوار میں کمی پیدا ہونا شروع ہوچکی ہے۔ اور ا سوقت صورتحال یہ ہے کہ صرف تین سے پانچ ٹرک کیلا ڈوگری کے علاقے سے حاصل ہورہا ہے۔ جس وجہ سے اس کی قیتمیں زیادہ ہورہی ہیں جبکہ گرمیوں کے سیزن میں کیلا کی قیمتیں مناسب حد تک تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سردیوں میں پیدوار کا کم ہونا درحقیقت گزشتہ چار چانچ سال سے شروع ہواہے ورنہ اس سے قبل سردیوں میں پیدوار تھوڑی بہت کم ہوتی تھی جو کہ فرق صرف تین سے چار ٹرک ہوتا تھا، مگر اب تو سردیوں میں فرق پندرہ بیس ٹرک ہوچکا ہے جو کہ نئی صورتحال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کیلا آرہا ہے اس سے لاہور، صوبہ خیبر پختوں خواہ او رپنجاب کی مارکیٹ کافی حد تک متاثر ہورہی ہے۔
کیلا کے کاروبار سے منسلک ایک اور شخصیت شاہد محمود کا کہنا تھا کہ کیلا سندھ کی مقامی نقد فصل سمجھی جاتی ہے اور گزشتہ دو سالوں بحران کے بعد کاشت کار کیلا کی کاشت کی جانب راغب ہوا تھا۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کاشت کاروں کو گنا کی فصل کی مناسب قیمیں نہیں ملی تھیں جس وجہ سے انھوں نے کیلا کی کاشت پر توجہ دی۔
اب اس وقت چونکہ مارکیٹ کے اندر ٹماٹر کی قیمتیں زیادہ ہیں اور گزشتہ سالوں میں ٹماٹر کی قیمتیں کم ہوئی ہیں جس وجہ سے کاشت کار اس سال سے ٹماٹر کی طرف راغب ہورہے ہیں اور اگر یہ ہی صورتحال رہی تو بہت سے کاشت کار ٹماٹر کی طرف راغب ہوجائیں گے
ریاض خان بلوچ جو کہ کاشت کار ہیں نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صاف اور صحت مند پانی کیلا کی پیدوار کے لیئے انتہائی اہم ہے۔ دریائے سندھ کے کناروں پر کیلا کی بہترین پیدوار کی بنیادی وجہ بھی درحقیقت صاف اور شفاف پانی تھا مگر 2011 کے سیلاب کے بعد صوتحال مختلف ہوچکی تھی۔ جس میں اب پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے کیلا کی فصل متاثر ہورہی ہے۔
Picture The Express Tribune
اس سال اگست تک کیلا کی فصل ٹھیک تھی مگر اگست میں جو بارش ہوئی اس نے فصل کو تباہ کیا ہے اور کاشت کاروں کو بہت نقصاں ہوا ہے۔ اسی طرح 2013 میں شدید سردی پڑی تھی جس وجہ سے بھی کیلا کی فصل متاثر ہوئی ہے اور اس سال بھی اسی قسم کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ریاض خان بلوچ کا کہنا تھا کہ جب پانی میں کسی بھی قسم کی آلائش وغیرہ ہوگی تو پھر کیلا بیمار ہوگا اور کینسر وغیرہ کا شکار ہوجائے گاجوکہ اب ہورہا ہے۔
ریاض خان بلوچ کا کہنا تھا کہ سندھ کا کیلا بمبئی کیلا کہلاتا ہے اس کے مقابلے میں آسڑیلیا اور جی نائن کیلا متعارف ہوا ہے مگر ان کی کوالٹی اور زائقہ پاکستان کے ببمئی سے بہتر نہیں ہے۔ مگر اب بیماروں اور مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہورہا ہے۔
ضلعی افسیر محکہ زراعت میرپور خاص یار محمد کا کہنا تھا کہ 2011 کے قیامت خیز سیلاب جس دوران سندھ کے مختلف علاقوں میں پانی چھ چھ ماہ تک کھڑا رہا تھا زمین کے اندرکچھ ایسے نمکیات پیدا ہوئے ہیں جس وجہ سے سندھ کے مختلف مقامات پر کیلا کی فصل متاثر ہوتی ہے۔ جس کی ایک وجہ بارش کا ہونا اور پھر سردی کا زیادہ ہونا بھی شامل ہوتا ہے۔ یار محمد خان کا کہنا تھا کہ اس سال کیلا کا سیزن مجموعی طور پر اچھا گزرا ہے مگر کاشت کاروں کو کچھ نہ کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں موسمی تبدیلیاں اور دیگر عوامل شامل ہیں۔
محکمہ زراعت سندھ کے2011 کے سروے کے مطابق کراچی سمیت سندھ کے 23اضلاح میں کیلا کاشت کیا جاتا ہے۔ 2011 سروے کے مطابق مجموعی طو رپر 2011 میں کیلا 19765 ایکڑ زمین پر کاشت کیا گیا تھا اور اس سال اس کی مجموعی پیدوار 76042میٹرک ٹن تھی جو کہ 2010 کے مقابلے میں تقریبا 26.34فیصد رقبہ کے لحاظ اور پیدوار کے لحاظ سے 32فیصد کم تھی۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پیدوار میں کمی کی وجہ کی وجہ مون سون بارشیں اور سیلابی صورتحال تھی۔