نوید خان
قدرت کے خزانے حقیقت میں خزانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ خزانے اتنے زیادہ ہیں کہ جدید ترین سائنسی دور میں بھی ان کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہے۔ کچھ خزانے سامنے اور کچھ خزانے تلاش کیے جاتے ہیں جبکہ کچھ خوش بختی سے ملتے ہیں یا جن سے قدرت راضی ہو انہیں نواز دیتی ہے۔
ایسا ہی ایک خزانہ سمندر میں موجود ہے جسے سوا مچھلی کہتے ہیں۔ سوا مچھلی میں ایسا کیا ہے کہ یہ کروڑ پتی بنا دیتی ہے اس کو آگے چل کر دیکھتے ہیں پہلے ان لوگوں کی کہانی پڑھتے ہیں جنھیں سوا مچھلی ملی اور کیسی ملی؟
یقین نہیں آتا میں بھی امیر ہوگیا۔
یہ کہانی کراچی کے ماہی گیروں کی ہے۔ ان ماہی گیروں کا کپتان نصرت نامی شخص ہے جس نے اب ماہی گیری چھوڑ دی ہے اور وہ کوئی کاروبار کرتا ہے۔ نصرت اور اس کی کشتی پر ایک دن تقدیر کچھ اس طرح مہربان ہوئی کہ ان کے چرچے پوری دنیا میں تھے اور پوری دنیا سے ان کو سوا مچھلی خریدنے کے لیے آفرز مل رہی تھیں۔
نصرت سمجھدار انسان ہیں انہوں نے سوا مچھلی کو فروخت کرنے میں جلدی نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی کہا کہ جھگڑا نہیں کرنا، دل میں میل نہیں لانا، حوصلہ رکھنا ہم مل کر سوا مچھلی کو مہنگے داموں فروخت کریں گے اور باقی ماندہ زندگی سکون سے گزاریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوا مچھلی کے حوالے سے میں نے بچپن میں کہانیاں سن رکھی تھیں۔ ہمارے بڑے جب کشتی میں فارغ ہوتے تو وہ پرانے قصے کہانیاں سناتے کہ فلاں کے بیٹے کو سوا مچھلی ملی تو وہ اب لندن میں بیٹھا ہے۔ فلاں کو سوا مچھلی ملی تو وہ بہت چالاک نکلا اس نے کسی کو نہیں بتایا اور مچھلی فروخت کرنے کے بعد پتا نہیں کہاں چلا گیا۔نصرت کہتے ہیں میں یہ کہانیاں بھی سنتا تھا کہ سوا مچھلی ملنے کے بعد ملاح آپس میں لڑ مرے اور مچھلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں بھی جب سمندر میں جاتا ہوں تو بس دل میں یہ ہی خواہش ہوتی کہ سوا مل جائے یا سوا جیسا کچھ اور مل جائے۔ پتا نہیں کیوں مجھے یقین تھا کہ سوا کبھی تو مجھے ضرور ملے گی۔ جب یہ یقین تھا تو سوچا کرتا تھا کہ پھر میں کیا کروں گا۔ اس کو کیسے سنبھالوں گا اور پھر کیا ہوگا۔

نصرت کا کہنا تھا کہ یہ سب سوچ رکھا تھا اور وہ بھی کیا دن تھا جب میں سمندر میں تھا۔ جال پھینکا تو جال کو پکڑنے والے لڑکوں نے کہا کہ کچھ بھاری ہے۔ بہت بھاری ہے۔ جب انھوں نے یہ کہا تو مجھے پتا نہیں کیوں لگا کہ ہو نہ ہو یا سوا ہے ہی۔میں نے فورا کہا کہ اوپر کھنچو اور واقعی وہ سوا تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ لانچ پر جشن کا سمان تھا۔ نعرے لگ رہے تھے۔ پتا نہیں کیا ہو رہا تھا مگر میں ڈر رہا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو مشکل سے چپ کروایا اور انھیں حوصلہ رکھنے کا کہا اور پھر ان کو بتایا کہ ہمار اگلا منصوبہ کیا ہوگا۔ ظاہر ہے منصوبہ یہ ہی تھا کہ خاموشی سے اچھے دام لے کر فروخت کرنا ہے اور پھر سب پر ظاہر کرنا ہے پھر ہم نے ایسے ہی کیا ۔
80کروڑ یا 18 کروڑ؟
نصرت کو کتنی بڑی مچھلی ملی اور کتنے پیسے لیے یہ انہوں نے نہیں بتایا۔
مگر اس کے حوالے سے مختلف باتیں کی جارہی ہیں۔ ایک بات جو زیادہ مقبول ہوئی وہ یہ تھی کہ نصرت کو اس کی لانچ پر جو مچھلی ملی تھی وہ دس ٹن سوا تھی اور انھوں نے یہ سوا اٹھارہ کروڑ روپے میں فروخت کی تھی۔
بتایا گیا ہے کہ یہ سوا مچھلی کے چھوٹے بڑے ایک ہزار دانے تھے جن کا وزن 10 ٹن تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ مچھلی کے 15سو دانے تھے اور انھیں 80 کروڑ کی پیشکش ہوئی تھی۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو مگر رقم کروڑوں اور پھر 18 کروڑ سے کم نہیں تھی۔
لیکن نصرت کے مؤقف کے برعکس ماہی گیروں کی تنظیم پاکستان فشر فوک کے رہنما مہران شاہ کا کہنا ہے کہ انھیں ’سوا‘ مچھلی کا شکار کرنے والے ماہی گیروں نے بتایا تھا کہ انھیں 80 کروڑ کی پیشکش ہوئی اور مچھلی کے دانے 1500 سے بھی زیادہ تھے۔
حکام کے مطابق سوا مچھلی سرکریک کے قریب حجامڑو کریک سے شکار کی گئی تھی جس کے بعد کئی ماہی گیر اور ملاح اس علاقے میں دیکھے گئے تھے۔
ڈیڑہ میٹر مچھلی اور قیمت کروڑوں روپے
معظم خان ماہر ماحولیات ہیں وہ بتاتے ہیں کہ سوا مچھلی کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ سندھی میں ’سوّا‘ اور بلوچی میں ’کر‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
معظم خان کے مطابق سوا کا سائز ڈیڑھ میٹر جبکہ وزن 30 سے 40 کلو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے لیکن نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہو جاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے۔
معظم خان کا کہنا تھا کہ سوا مچھلی کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں پایا جانے والا ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں ’پوٹا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر نیچے آتی جاتی ہے۔ یہ بلیڈر تمام مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں تھوڑے موٹے اور تندرست ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی روایتی کھانوں میں اس پوٹے کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ امیری اور شان و شوکت کی بھی علامت ہے۔ جیسے کہ پاکستانی معاشرے میں سونا رکھنے کا رواج ہے۔ ویسے ہی چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کی کچھ ادوایات جن میں درد اور جنسی ادوایات شامل ہیں ان میں بھی سوا مچھلی کے پوٹے کا استعمال ہوتا ہے۔
فش امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار سے منسلک لوگوں کے مطابق ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت دو لاکھ ہانگ کانگ ڈالر ہے۔
اس کے علاوہ اس سے ایک قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سوّا کہاں پائی جاتی ہے؟
ایک منٹ رک جائیں! اگر اپ سوا مچھلی کے شکار کا سوچ رہے ہیں تو ہزار بار سوچ لیں ایسا نہ ہو کہ انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہو کر بھارتی جیل کی سیر کرنا پڑ جائے کیونکہ کاجھر کریک سرکریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ سوا مچھلی کاجھر کریک کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ متعدد بار پاکستانی ماہی گیر سوا کی تلاش میں بھارتی جیل کی سیر کرچکے ہیں جبکہ ایسا نہیں کہ صرف پاکستانی ماہی گیر بلکہ انڈین ماہی گیر بھی پاکستان نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہو کر پاکستانی جیل کی سیر کرچکے ہیں۔
سوّا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماجگاہ ہے۔
سوّا غول کی صورت میں رہتی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ جب پکڑی جاتی ہے تو ایک نہیں ہوتی بلکہ ان کی تعداد سیکنٹروں میں ہوتی اور تب ہی نوٹ برسا سکتی ہے۔ اس کی خوراک میں میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔