ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومٹاپ اسٹوریمدین میں توہین مذہب پر ہلاک ہونے والا سلیمان کون تھا؟ پہلی...

مدین میں توہین مذہب پر ہلاک ہونے والا سلیمان کون تھا؟ پہلی بار تفصیلات منظر عام پر

قلندر تنولی

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے مدین میں توہین مذہب کے الزام پر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے رہائشی سلیمان کو انصاف دلانے کے لیئے قریبی دوستوں نے سر جوڑ لیئے ہیں۔

سیالکوٹ میں موجود ان کے بچپن کے دوست اور قانون دان جاوید میر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ "وہ اور ان کے دوست تصور بھی نہیں کر سکتے کہ سیلمان توہین مذہب بھی کرسکتا ہے، ایسا ممکن نہیں لگتا ہے”۔

مدین سوات میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سلیمان کی فائل فوٹوز: کریڈٹ جاوید میر ایڈووکیٹ

جاوید میر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم کچھ دوست اکھٹے ہو رہے ہیں جس میں ہم سیلمان کے ایصال ثواب کے لیئے تقریب منعقد کریں گے اور اسی تقریب میں سوچا جائے گا کہ کیسے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہم لوگ کردار ادا کرسکتے ہیں۔

جاوید میر ایڈووکیٹ اور ان کے دوست مستقبل کی کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور وہ سلیمان کے بارے میں کیا بتاتے ہیں اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے دیکھتے ہیں

کہ سیاحتی مقام مدین میں کیا واقعہ پیش آیا۔

مدین میں کیا واقعہ پیش آیا

سوات پولیس کے مطابق مدین میں قرآن شہید کرنے کے واقعہ میں دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایک مقدمہ مقتول سلیمان پر درج کیا گیا ہے اور دوسرا ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراو اور قتل کرنے کا مقدمہ ہے۔

مالاکنڈ ڈویژن کے آر پی او محمد علی خان کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے دو ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں جن میں سے ایک مقتول پر توہین مذہب کے الزام کے بارے میں ہے جبکہ دوسری ایف آئی آر مشتعل ہجوم کے تھانے پر حملے سے متعلق ہے۔

مدین, سوات میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سلیمان کی فائل فوٹوز. کریڈٹ جاوید میر ایڈووکیٹ

توڑ پھوڑ اور تشدد کے دوران 11 افراد زخمی ہوئے جن میں بیشتر کی عمریں 13 سال سے 24 سال کے درمیان بتائی گئیں جبکہ چند ایک کی عمریں 34 اور 35 سال بیان کی گئی۔ اس مقدمے میں براہ راست 40 سے زائد لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ 2 ہزار افراد نامعلوم ہیں۔

سوات کے ضلعی پولیس سربراہ ڈاکٹر زاہد اللہ خان کے مطابق سلیمان مدین کے ہوٹل میں 18 جون کو آیا تھا اور جمعرات کی شام مقامی تھانے کو اطلاع موصول ہوئی کہ ہوٹل میں مقیم سیاح توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے جس پر ایس ایچ او موقع پر پہنچے اور اس کو مشتعل لوگوں کی گرفت سے چھڑا کر مقامی تھانے لے گے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد مشتعل ہجوم بھی تھانے آ پہنچا اس دوران علاقے کی مساجد میں اعلانات کیے گئے جس پر بڑی تعداد میں لوگ تھانے کے باہر پہنچ گئے اور سیاح کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے اور پر تشدد ہو گئے۔

"پولیس نے ہجوم سے سلیمان کو بچانے کی بھرپور کوشش کی پہلے تھانے پر پتھراؤ کیا اور پھر دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے اور تھانے کی عمارت اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور اس دوران پولیس اہلکاروں کو بھی معمولی چوٹیں آئیں "۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ہجوم کو تھانے پر دھاوا بولتے اور لوگوں کو ایک جلتی ہوئی لاش کے ارد گرد دیکھا جا سکتا ہے۔

سوات پولیس کا دعوی ہے کہ اس واقعہ کے بیشتر ملزماں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

جاوید میر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ پولیس کو سلیمان کا تحفظ کرنا چاہیے۔

سلیمان کون تھا؟

جاوید میر ایڈووکیٹ کہتے ہیں سلیمان کے والد بچپن میں وفات پا گئے تھے۔ یہ تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ والد کی وفات کے بعد ساری ذمہ داری سلیمان پر تھی جس وجہ سے یہ اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر ملائیشیا چلا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہاں پر جا کر اس نے بہت محنت کی ۔ ماہا انڈسڑی کے نام سے کاروبار شروع کیا جو بہت اچھا چل گیا تھا۔ سلیمان نے ملائیشیا جا کر بہن اور بھائی کی کفالت کی۔ کچھ عرصے میں اس کی معاشی صورتحال اچھی ہوگئی تھی۔ شروع میں تو وہ پاکستان نہیں آتا تھا مگر بعد میں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔

جاوید میر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی بھی سلیمان کو مذہبی بات چیت کرتے نہیں دیکھا تھا۔

جاوید میر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے میں نے سلیمان کی فیس بک آئی ڈی نہیں دکھائی تھی مگر اب جب لوگ کافی اصرار کر رہے ہیں تو میں یہ فیس بک آئی ڈی دکھا رہا ہوں۔ جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک نارمل انسان تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملائیشیا میں جو مذہبی وفود جاتے تھے وہ وہاں پر ان کی میزبانی کرتا اور ان مجالس میں اکثر بات چیت بھی کرتا تھا۔ جو کہ اب سب سن سکتے ہیں۔

 

جاوید میر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس کی کچھ عرصہ پہلے شادی ہوئی تھی۔ مگر یہ شادی چل نہ سکی جس پر وہ مایوسی کا شکار تھا اور شاید کچھ مسائل کا بھی شکار ہو۔

"مجھے نہیں پتا مدین میں کیا ہوا ہے اور کیا نہیں۔ مگر جب اس کو پولیس نے پکڑ لیا تھا تو پھر اس کو تھانے میں سے نکال کر بے رحمانہ طریقے سے قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ بہت افسوسناک اور خوفناک ہے "

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین