آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پڑوسی اسلامی ملک افغانستان کو بھائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل کے ساتھ اختلاف صرف فتنہ خوارج کی وہاں موجودگی اور پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں پر ہے ، یہ اختلاف اُس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس مسئلے کو دور نہیں کر لیتے۔
آرمی چیف نے پشاور میں خیبرپختونخوا کے سیاسی قائدین سے مشاورت کیلئے ملاقات کی ، اجلاس میں وزیرِ اعلٰی پختونخوا علی امین گنڈا پور، گورنر پختونخوا فیصل کریم کنڈی، امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عطاء الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ایمل ولی خان، سابق وزیرِ اعلٰی محمود خان، سابق وزیرِ داخلہ آفتاب احمد شیر پاؤ اور سابق وزیرِ اعلٰی امیر حیدر خان ہوتی بھی شامل تھے۔
سیاسی رہنماؤں سے گفتگو میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے، ہم پڑوسی برادر ملک افغانستان سے ہمیشہ بہتر تعلقات کے خواہاں رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان متعدد بار کابل سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر چکا ہے، گزشتہ ماہ سرحدی چیک پوسٹ پر خوارج کے حملے کے بعد پاکستان نے افغان صوبے پکتیکا میں فضائی کارروائی کرتے ہوئے خوارج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں اہم کمانڈرز سمیت 71 سے زائد خوارج ہلاک اور خودکش جیکٹ کی فیکٹری سمیت 4 اہم مراکز تباہ ہوگئے تھے۔
پاکستان نے یہ کارروائی ایسے وقت میں کی تھی جب طویل وقفے کے بعد پاکستانی وفد مذاکرات کیلئے کابل میں موجود تھا، پاکستان کی کارروائی پر افغانستان کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ پاک فوج نے کہا کہ ہم کالعدم ٹی ٹی پی اور دہشتگرد نیٹ ورک کے خلاف متحد ہیں ، سیکیورٹی فورسز نے اس فتنے کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، ہم عزم اور قربانیوں سے اس فتنے پر قابو پا لیں گے۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہماری افواج نے دہشت گردوں کے لیڈروں کا خاتمہ یقینی بنایا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کا ڈھانچہ تباہ کر کے اس کے سہولت کاروں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
اجلاس میں آرمی چیف نے سوال کیا کہ کیا فساد فی الارض، اللّٰہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ نہیں ہے؟ ریاست ہے تو سیاست ہے، خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں، سب کو بلا تفریق اور تعصب دہشت گردی کے خلاف یک جا ہوکر کھڑا ہونا ہوگا، جب متحد ہو کر چلیں گے تو صورت حال جلد بہتر ہو جائے گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر سب پارٹیوں کا اتفاق حوصلہ مند ہے مگر اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا، دہشت گردوں کی اس سر زمین پر کوئی جگہ نہیں ہے، اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔