1973 کا سال جب عراق میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اس منصوبے کے سرغنہ اور دیگر 23 فوجی افسران کو سزائے موت دی گئی۔ یہ کارروائی انتہائی سرعت سے ہوئی اور تمام افراد کی موت کا اعلان ریڈیو بغداد سے ہوا تھا۔
پھانسی کی سزا پانے والوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جو تخریب کاری کیس میں پاکستان کو بھی مطلوب تھا۔ عراق کی ناکام فوجی بغاوت کے تانے بانے پاکستان سے جڑتے تھے۔
پہلے ہم دیکھیں کہ عراق کی ناکام فوجی بغاوت کیا تھی اور اس کا سرا پاکستان سے کیسے جڑتا تھا۔
بغاوت کا آغاز کیسے ہوا؟
عراق میں اس فوجی بغاوت کا آغاز وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل حماد شہاب اور وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل سعدون غیدان کے بندوق کی نوک پر اغوا سے ہوا۔ یہ انتہائی دلیرانہ واردات تھی۔ ان دونوں کو دوپہر کے کھانے کی ایک دعوت کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔
اس بغاوت اور واردات پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب صدام حسین ملک کے صدر نہیں بنے تھے بلکہ نائب صدر تھے اور احمد حسن الکبر صدر تھے مگر تمام تر اختیارات صدام حسین کے پاس تھے۔
جب یہ واردات ہوئی تو اس وقت صدر احمد حسن البکر غیر ملکی دورے سے واپس لوٹے تھے۔ ایئر پورٹ پر ان دونوں وزراء کی عدم موجودگی نے سب کو نہ صرف حیران و پریشان کر دیا بلکہ سیکیورٹی ادارے بھی الرٹ ہوگئے تھے۔
دونوں وزراء کو اغوا کرکے ایران کی سرحد کی جانب لے جایا جارہا تھا۔ شاہد یہی وجہ تھی کہ بعد میں عراق نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے۔
اس بغاوت کا ایک اہم کردار نثار السعود بھی تھا جن کا نام اس بغاوت سے پہلے پاکسان میں سنا گیا تھا۔
نثار السعود کون تھے؟
نثار السعود اصل میں عراقی شہری تھے اور یہ عراق کی انٹیلی جنس میں کام کرتے تھے۔ یہ پاکستان میں عراقی سفارت خانے میں خدمات انجام دیتے رہے تھے۔
جب یہ پاکستان میں تھے تو اس وقت انھوں نے پاکستان میں تخریب کاری کا منصوبہ بنایا تھا جو ناکام بنا دیا گیا تھا۔
پاکستان کے خفیہ اداروں نے اسلام آباد میں نثار السعود کی رہائشگاہ سے بھاری اسلحہ بر آمد کیا تھا مگر وہ خود فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
10 فروری 1973 وہ دن تھا جب اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے پر پاکستانی انٹیلی جنس اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور سیاسی قونصلر نثار السعود کی رہائش گاہ سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا لیکن نثار السعود پراسرار طور پر منظر سے غائب ہو چکے تھے۔
اسلحہ برآمدگی کے دوران ایسے شواہد بھی ملے تھے جس سے واضح ہوگیا کہ اس کا تعلق نثار السعود سے ہے اور نثار السعود ایسے غائب ہوگیا تھا کہ پاکستانی ادارے پریشان ہوگئے تھے۔ بالآخر پاکستان نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اس سازش کے تانے بانے نثار السعود سے ملتے ہیں۔ اسلحہ بر آمدگی کے بعد عراقی سفارتخانے نے بھی کوئی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے سارا ملبہ نثار السعود پر ڈال دیا تھا۔
ایک گولی نے سازش کا بھانڈا پھوڑا۔
پاکستان میں تخریب کاری کی بین الاقوامی سازش ایک گولی سے شروع ہوئی تھی۔ یہ گولی کراچی میں بر آمد ہوئی تھی جس کے بعد خفیہ اداروں نے تفتیش شروع کی تو ساری سازش کھلتی چلی گئی تھی۔
یہ گولی نثار السعود کے سامان سے کراچی میں گری تھی۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے اس گولی کو نظر انداز نہیں کیا۔ اصل پریشانی کی بات یہ تھی کہ گولی روسی ساختہ تھی۔
پاکستانی خفیہ ادارے سمجھ تو گئے تھے کہ یہ کون ہے اور کیا ہے مگر معاملہ سفارت کاری کا تھا۔ عراقی سفارت خانے سے تلاشی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس دور میں جاری پریس ریلیز میں عراقی سفیر نے کہا تھا کہ کتابیں سفارت خانے لائی گئی ہیں اور وہ حکومت کی اجازت کے بغیر سفارت خانے کی تلاشی کی اجازت نہیں دے سکتے۔
جواب میں حکومت پاکستان نے دوٹوک کہا کہ کوئی بھی حکومت اپنے ملک کی سالمیت کے خلاف سرگرمیاں برداشت نہیں کر سکتی جس کے بعد مکمل تیاری ہوئی اور تلاشی لی گئی۔ تلاشی کے دوران 300 سب مشین گنز، ہزاروں گولیاں اور کمیونی کیشن آلات برآمد ہوئے جن پر عراقی سفارت خانے اور ایئر لائن کی مہریں لگی ہوئی تھی۔
جس پر عراقی سفارت خانے نے پولیٹیکل اتاشی نثار السعود کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی۔
اس موقع پر باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ پاکستانی حکومت کو اسلحہ برآمدگی پر دھچکا لگا ہے۔ ایک مسلمان ملک غیر ملکی عناصر کی ساز باز سے سازش میں ملوث ہے جو پاکستان کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے بیان کے مطابق اس کا مقصد شرپسندوں کو گوریلا جنگ کی تربیت دینا اور پاکستان کا امن تباہ کرنا ہے۔
اس واقعہ نے پاکستان اور عراق کے تعلقات کو کافی نقصاں پہنچایا۔ پاکستان نے اپنا سفیر واپس بلا لیا جبکہ عراقی سفیر کو نا پسندیدہ شخصیت قرار دے دیا گیا۔
عراق میں منظر عام پر
تاریخ کے صحفات پر ایسی معلومات نہیں ہیں کہ نثار السعود بغداد پہنچا تو کیا ہوا مگر اس کو دیگر فوجی حکام کے ساتھ عراق میں ناکام فوجی بغاوت میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
جنوبی ایشیا پر گہری نظر رکھنے والی صحافی اور محقق سیلِگ ہیریسن نے اپنی کتاب ’ان افغانستان شیڈو‘ میں لکھا کہ ‘ نثار السعود اسلحہ بر آمدگی سے تین روز پہلے پاکستان چھوڑ کر جا چکا تھا اور پھر اس کو 2 جولائی کو عراق میں ناکام فوجی بغاوت پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔
عراقی سفارت خانے سے اسلحہ بر آمدگی بڑا واقعہ تھا جس کے بعد پیلیز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان میں عطا اللہ مینگل کی حکومت کو ‘غداری’ کا الزام لگا کر برطرف کر دیا تھا۔
اس موقع پر کہا گیا کہ مینگل حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داریوں سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ سویت یونین اور عراقی حکومت کی ملی بھگت سے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی۔
کیا ہوا، کیسے ہوا؟ بہت سے راز ابھی بھی راز ہی ہیں۔ شاہد آنے والا وقت اس راز کو طشت ازبام کرسکے کہ عراقی سفارت خانے میں لائے گئے اسلحے کا کیا مقصد تھا اور پھانسی پر لٹکائے گئے نثار السعود کس کے اشارے پر کام کر رہے تھے۔