مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے احتجاج کی دھمکی اور الٹی میٹم کے بعد وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں یقین دہانی کے بعد آج صدر مملکت آصف علی زرداری نے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 2024 پر دستخط کر دیئے ہیں۔
اس سے قبل 13 دسمبر کو مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات میں کہا گیا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔
انہو ں نے کہا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔
صدر مملکت کے اعتراض پر جے یو آئی نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ لگتا ہے کہ صدر پاکستان نے بیرونی دباؤ میں آکر سوسائٹی ایکٹ پر دستخط نہیں کیے۔
صدرمملکت نے بل پر ایسے وقت میں دستخط کیے ہیں جب گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے جنرل سیکریٹری مولانا راشد محمود سومرو نے لاڑکانہ میں صدر زرداری سے ملاقات کی تھی۔
صدر زرداری کے دستخط کے بعد دینی مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانون بن گیا جس کے نتیجے میں اب مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کے بجائے سوسائیٹیز ایکٹ کے تحت ہوگی۔
واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے کی شرط پر مولانا مدارس کی جانب سے رجسٹریشن کے طریقہ کار میں تبدیلی کا بل منظور کروایا گیا تھا، بل کو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں 1860 کے ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔