محمد نوید خان
ابراہیم بھولو کراچی کے پسماندہ علاقے پٹنی محلے میں پیدا ہوا مگر وہ اس کی دہشت سرحد پار کر گئی تھی۔ بھولو کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بات کم کرتا اور بندوق زیادہ چلاتا ہے۔ کراچی میں تو اس کا طوطی بولتا ہی تھا مگر اس کے رابطے انڈیا کے انڈر ورلڈ کے علاوہ مشرقی اور وسطی افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے۔
ابراہیم بھولو قصاب کے نام سے مشہور تھا مگر خود کو حاجی ابراہیم بھولو کہلوانا پسند کرتا تھا۔ وہ غریب خاندان میں پیدا ہوا مگر صدارتی انتخابات تک کی فنڈنگ کرتا رہا۔ 90 کی دہائی میں جنھوں نے ابراہیم بھولو کا بچپن دیکھا تھا وہ یقین ہی نہیں کرسکتے تھے کہ یہ ایک دن قصاب بن جائے گا۔
ابراہیم بھولو کی جرائم کی کہانی بالکل کسی تیز رفتار ایکشن ڈرامہ فلم کی طرح ہے جس میں گلیمر سے لے کر سب کچھ ہے اور آخر میں برا انجام بھی۔ اس کہانی کے کردار دہلی انڈیا کے انڈر ورلڈ سے بھی جڑتے ہیں۔ کہانی پڑھنے سے پہلے سمجھ لیں کہ ابراہیم بھولو بالکل ان پڑھ تھا مگر طالب علم رہنما رہا۔
ابراہیم بھولو صرف جرائم اور اپنی بے رحمی کی وجہ سے قصاب نہیں کہلوایا بلکہ اس نے حقیقت میں بھی قصاب کا کام کیا تھا۔
انگوٹھا چھاپ طالب علم رہنما
ابراہیم بھولو کے ساتھ اس کے بچپن اور جوانی میں ساتھ رہنے والے پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے بتایا ہے کہ بھولو کبھی سکول نہیں گیا مگر اس کے باوجود وہ اتنہائی چالاک اور شاطر تھا۔ یہ انتہائی مضبوط جسم کا مالک تھا۔ ابراہیم بھولو کی جسمانی طاقت کے کئی قصے مشہور ہیں کہ گائے یا کسی بھی جانور کو ہاتھ سے پکڑ کر گرا سکتا تھا، دیوار پر کک مار کر گرا دیتا تھا۔
ابراہیم بھولو کی کہانی بے نظیر بھٹو کی 1988 میں حکومت بننے کے بعد شروع ہوتی ہے جب طلبا سیاست میں تشدد شروع ہوا اور الطاف حسین کی ایم کیو ایم بھی اپنی مقبولیت کی معراج پرپہنچ چکی تھی۔ اس دور میں ابراہیم بھولو پیپلزسٹوٹنس فیڈریشن کے مسلح گروپ کا ساتھی بن گیا۔ دراصل ابراہیم بھولو نے طلبا سیاست کا انتخاب ڈان بننے کے لیے کیا تھا۔
اس زمانے کے مشہور طالب علم رہنما نجیب احمد کو جرات مند سیکورٹی گارڈ کی ضرورت تھی تو ان کی نظر ابراہیم بھولو پر پڑی۔ ابراہیم بھولو ہر وقت سائے کی طرح نجیب احمد کے ساتھ رہتا جس وجہ سے خود بھی طالب علم رہنما کہلانے لگا تھا۔
اس دور میں کئی ایسے واقعات ہیں جب ابراہیم بھولو نے کالج، ہاسٹل پر قبضہ کرنے کے لیے اسلحہ کا استعمال کیا اورغنڈہ گردی و بدمعاشی کی جس کے بعد ہر طرف ابراہیم بھولو کا طوطی بولنے لگا۔
سال 1989بہت اہم ثا بت ہوا جب کراچی یونیورسٹی میں عزیزاللّہ اُجن اور ان کے تین ساتھیوں کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پرعائد کیا گیا تھا۔ حالات خوفناک ہوگئے یہاں تک کہ نجیب کو بھی گھات لگا کر قتل کردیا گیا۔ جواب میں ابراہیم بھولو نے بھی تباہی مچا دی تھی مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلا اور پیلیز پارٹی کی حکومت ختم کردی گئی۔
ابراہیم بھولو کے داود ابراہیم سے رابطے
جب پیپلزپارٹی زیر عتاب آئی تو پارٹی کے بہت سے لوگوں نے مرتضی بھٹو سے رابطے قائم کرلیے جن میں ابراہیم بھولو بھی شامل تھا۔
یہ رابطے ابراہیم بھولو کے لیے نئے راستے کھولتے چلے گئے۔ اس زمانے میں ابراہیم بھولو کے کراچی میں گھڑ ریس کے لیے مشہور کردار رانا صاحب کے نام سے جانے پہچانے جانے والے سے رابطے بڑھ گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ رانا صاحب نے ابراہیم بھولو کو سمجھایا کہ تمھارے لیے کراچی میں حالات اچھے نہیں ہیں اور شاہد ان رانا صاحب ہی کے کہنے اور مدد پر ابراہیم بھولو کراچی چھوڑ کر افریقی ملک موزمبیق جا بسا تھا۔
کہتے ہیں کہ افریقہ جانا ابراہیم بھولو کو بہت راس آیا۔ موزمبیق میں ایک پاکستانی جو کہ میمن سیٹھ کے نام سے مشہور تھے وہاں کی انڈر ورلڈ کا اہم کردار تھے جن کی مدد کے بعد ابراہیم بھولو وہاں کی انڈر ورلڈ کا اہم کھلاڑی بنا۔ یہ وہ دور تھا جب انڈیا انڈر ورلڈ کے داؤد ابراہیم بھی افریقہ میں قدم جما چکے تھے۔
یہاں پر داؤد ابراہیم اور بھولو میں رابطے ہوتے ہیں۔ انڈر ورلڈ گروپ توسیع کے بعد ایک مضبوط گروپ بن جاتا ہے۔ وہاں پر ابراہیم بھولو کی مختلف گروپوں سے جھڑپیں ہوئیں اور وہ ایک ایک کے بعد ایک لڑائی جیتتا چلا گیا۔ وہاں شراب، جُوا، منشیات، جعلی کرنسی، سٹّے، بھتّے، ہنڈی، حوالہ اور سمگلنگ سمیت ہر وہ غیرقانونی کام کیا جاتا۔
اس سارے دھندوں میں ابراہیم بھولو کو داود ابراہیم کی مدد حاصل تھی مگر اب داؤد ابراہیم کے ستارے گردش میں تھے اور داؤد ابراہیم کا ایک اہم ساتھی چھوٹا راجن باغی ہوچکا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ابراہیم بھولو نے چھوٹا راجن گروپ کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کیں اور یہ کامیابیاں درحقیقت داؤد ابراہیم کی تھیں۔
ابراہیم بھولو افریقہ میں چھایا ہوا تھا اور کراچی میں ایم کیو ایم کے دن بدل چکے تھے۔ ایم کیو ایم کے کئی لوگ افریقہ میں پناہ لے رہے تھے اور ابراہیم بھولو اپنی دشمنیاں بھولا نہیں تھا۔ اس نے ایم کیو ایم کے لوگوں کو چن چن کر ٹارگٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ یہاں پر اس نے ایم کیو ایم کے لوگوں کے حوالے سے پاکستان میں پولیس کو بھی مخبریاں کرنا شروع کردیں تھیں۔
چھوٹا راجن پر حملے
ابراہیم بھولو داؤد ابراہیم کے قریب تر ہو چکا تھا۔ ایسے میں کراچی انڈر ورلڈ کا ایک اور کردار وارد ہوتا ہے یہ تھا شعیب خان۔ ابراہیم بھولو کی شعیب خان سے ملاقات داؤد ابراہیم کے ذریعے ہوتی ہے۔ شعیب خان اصل میں داؤد ابراہیم کا ساتھ حاصل کرنے کی کوشش میں دبئی پہنچا تھا۔ دونوں کی ملاقات ہوئی اور ابراہیم اور شعیب خان دوست بن گئے۔
اب شعیب خان داؤد ابراہیم کا ساتھ چاہتا تھا تو یہ کوئی آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے داؤد ابراہیم نے شعیب خان سے کہا کہ وہ اس کے سب سے بڑے مخالف چھوٹا راجن کو راستے سے ہٹائے۔ چھوٹا راجن کو انڈین خفیہ اداروں کی مدد حاصل تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ شعیب خان ایک انتہائی شاطر انسان تھا اس نے یہ کام ابراہیم بھولو سے لینے کا فیصلہ کیا اوردونوں کے درمیاں سودے بازی ہوئی جس کے بعد ابراہیم بھولو اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ اس اپارٹمنٹ میں پہنچ گیا جہاں پر چھوٹا راجن کی رہائش تھی۔
اس واقعہ پر کئی رپورٹس چھپ چکی ہیں۔ جب ابراہیم بھولو اپنے ساتھی کے ہمراہ اپارٹمنٹ کے داخلی دروازے پر پہنچا تولاؤنج میں روہت ورما، چھوٹاراجن کا دوست، اس کی اہلیہ سنگیتا اور ایک بچہ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ابراہیم بھولو نے حملہ کیا۔ یہ گولی چھوٹا راجن کی اہلیہ کو لگی مگر چھوٹا راجن فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
ابراہیم بھولو اور اس کے ساتھیوں نے چھوٹا راجن پر گولیاں چلائیں وہ زخمی تو ہوا مگر بچ نکلا۔
چھوٹا راجن بچ گیا تو یہ بات داؤد ابراہیم کو انتہائی نا خوشگوارگزری اس پر داؤد ابراہیم اور شعیب خان میں تلخ کلامی ہوئی جس پر شعیب خان نے ابراہیم بھولو کو رقم دینے سے انکار کردیا تھا اور یہاں سے شعیب خان اور ابراہیم بھولو کے درمیاں دشمنی کا آغاز ہوگیا۔
شعیب خان نے ابراہیم بھولا کو قتل کروا دیا
شعیب خان نے فیصلہ کیا کہ وہ ابراہیم بھولو کو نہیں چھوڑے گا اور شاہد ایسا ہی فیصلہ ابراہیم بھولو نے بھی کر رکھا تھا۔ اب قبر ایک تھی اور مُردے دو۔ اس میں کسی ایک نے جانا ہی جانا تھا۔
2001 میں ابراہیم بھولو خیابان سحر کے علاقے سے لاپتا ہوتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں شعیب خان کا گھر ہے۔ کئی تفتیش کاروں کی رائے ہے کہ درحقیقت ابراہیم بھولو شعیب خان سے ملنے گیا تھا۔ ابراہیم بھولو نے شعیب خان کے گھر پر کئی گھنٹے گزارے تھے۔ بھولو کی گاڑی مل گئی تھی۔
گاڑی ملتے ہی تفتیش کاروں کو پتا چل گیا کہ ایئرپورٹ لائے جانے سے قبل بھولو کی گاڑی دراصل کئی گھنٹوں تک شعیب خان کے گھر پر کھڑی رہی تھی۔ ابراہیم بھولو کی گمشدگی کا مقدمہ درج ہوا مگر ابراہیم بھولو کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔
جب یہ گمشدگی طول پکڑ گئی تو ابراہیم بھولو کے گروپ نے معاملہ خود طے کرنے کا فیصلہ کیا اور شعیب خان کے قافلے پر حملہ کر دیا جس میں شعیب خان تو بچ گیا مگر وہ سمجھ گیا کہ اب باہر وہ محفوظ نہیں اس نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا مگر اس پرایک اور حملہ جیل سے عدالت لے کر جاتے ہوئے ہوا۔
معاملہ کئی سال تک چلا ابراہیم بھولو کا کچھ پتا نہ چل سکا مگر بعد ازاں 3 سال بعد شعیب خان نے اعتراف کیا کہ اس نے ابراہیم بھولو کو قتل کروا دیا تھا۔
ابراہیم بھولو کا قتل انتہائی بے رحمانہ انداز میں کیا گیا، شعیب خان نے ابراہیم بھولو کو پہلے شراب پلائی پھر گلبرگ میں واقع ایک مکان پر لے گیا جہاں پر بھولو کے گلے میں پھندا ڈال کر قتل کیا اور لاش کو عقبی باغیچے میں دفن کروا دیا۔
بعد ازاں ابراہیم بھولو کی لاش کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے ہوئی تھی۔