سہانی زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے غیرقانونی طریقتے سے یورپ جانے والے غریب پاکستانی نوجوان بے خبر تھے کہ یہ ان کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔
یونان کے سمندر میں غرق ہونے والی بدقسمت کشتی میں دیگر افراد کے ہمراہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاؤالدین کے ایک ہی گاؤں کے 10 نوجوان کشتی پر سوار تھے ، اس گاؤں میں اب صف ماتم بچھی ہے۔
اس گاؤں سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والوں میں 35 سالہ احتشام انجم ولد ذوالفقار، 32 سالہ عبد الرحمان ولد شفیق، 30 سالہ فہد خالد ولد محمد خالد، 28 سالہ انس اسلم ولد اسلم ، 25 سالہ محمد ایاز ولد محمد ریاض اور مختار احمد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سمندر میں کشتی ڈوبنے سے جاں بحق ہونے والوں میں 5 پاکستانیوں کی شناخت ہو چکی ہے جب کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے نے ریسکیو کیے جانے والے افراد کی فہرست بھی جاری کر دی ہے۔
کشتی حادثے میں لاپتا ہونے والے 35 سالہ احتشام انجم کے قریبی عزیز فضل الرحمٰن نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ احتشام خاندان کا لاڈلا تھا، اس کا ایک ہی جنون تھا کہ وہ دن آئے گا جب وہ یورپ جائے گا اور گھر سے غربت ختم ہو جائے گی۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گاؤں ہیلاں کے 10 نوجوانوں میں سے صرف ایک نوجوان ہارون اصغر کو ریسکیو کیے جانے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ہارون نے ریسکیو کیے جانے کے بعد اہلِ خانہ سے رابطہ بھی کیا ہے۔
گاؤں کے جن گھرانوں کے نوجوانوں کا فہرست میں نام نہیں وہاں لوگ افسوس کرنے آ رہے ہیں لیکن اہلخانہ اب بھی کسی معجزے کے منتظر ہیں۔
یونان میں پاکستان کے سفارت خانے نے زندہ بچنے والے جن 47 افراد کی فہرست جاری کی ہے اس پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس میں 12 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ 14 برس کے راحت دلاور اور 15 سال کے محمد صفدر وہ خوش قسمت ہیں جنہیں ریسکیو کیا گیا ہے۔
اسی طرح 17 سال کے تین، 18 سال کے چار اور 19 برس کے تین لڑکوں کو بھی ریسکیو کیا گیا۔
اس کے علاوہ کشتی میں 20 سال کے پانچ ، 21 سال کے دو ، 22 سال کے پانچ ، 23 سال کے تین اور 24 سال کے تین نوجوان تھے جن کی جان بچ گئی ہے۔