نورین محمد سلیم
اس وقت پوری دنیا میں زیادہ تنخواہ والی ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ 30 فیصد تک بتا جا رہا ہے جبکہ اس میں بھی کچھ شعبوں کی ڈگریوں کی مانگ اس سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان سٹوریز پہلے ان ڈگریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا مگر یاد رکھنے کی بات ہے کہ صرف ڈگریاں ہی شاندار سالانہ تنخواہ جو کہ بین الاقوامی میعار کے مطابق $250,000 یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے دلانے کے لیے کافی نہیں ہوتی ہے اس کے لیے کچھ اور خصوصی صلاحتیوں کا ہونا بھی لازمی ہے۔
پہلے یہ جانیں کہ وہ کون سے ڈگریاں ہیں اور پھر ان اضافی صلاحیتوں کے بارے میں جانیں گے۔
ماسٹرز ان بزنس ایڈمنسٹریشن (ایم بی اے)
کوئی شک نہیں کہ ماسٹرز ان بزنس ایڈمنسٹریشن کے بعد آپ ایک اچھی پوزیشن کے حق دار ہوسکتے ہیں جس میں کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفسیر کی خدمات ادا کر رہے ہوں۔ اس میں کتنا کمایا جا سکتا ہے یہ مختلف حالات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ کس صنعت، شعبہ میں خدمات انجام دینی ہیں یا کس شہر، ملک میں تعنیات ہیں۔
اس کے علاوہ ماسٹرز ان بزنس ایڈمنسٹریشن کرنے والوں کیلئے مختلف قسم کی ملازمتوں کے لیے بھی مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔
ماسٹرز آف سائنس ان گلوبل فنانس
گلوبل فنانس میں ایم ایس سی، بینکنگ اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ملازمتوں کے بے شمار مواقع پیدا کر رہا ہے۔ اس ڈگری کے بعد اس بات کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں کہ کسی انویسٹمنٹ بینک یا کسی بینک میں اعلیٰ عہدے پر خدمات انجام دے رہے ہوں یا کسی بڑے کمپنی کے شعبہ فنانس کی سربراہی کررہے ہوں۔ دونوں صورتوں میں ترقی اور آمدن کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں۔
ماسٹر آف سائنس انٹیلیکچول پراپراٹی
یہ ایک قانونی شعبہ ہے۔ اس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد patent پیٹنٹ میں پریکٹس کرسکتے ہیں جس کی آمدن اور ڈیمانڈ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیٹنٹ پریکٹس کرنے والوں کی طلب کیوں بڑھتی جارہی ہے تو یہ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ چھوٹی، بڑی کمپنیاں اور ایسی کمپنیاں جو کہ ٹیکنالوجی میں خدمات انجام دیتی ہیں وہ اپنے ٹریڈ مارک، کاپی رائیٹس اور دیگر حقوق کا تحفظ چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ کوئی دوسری کمپنی ان کے پراڈکٹ کی چوری کرکے پیسے نہ کمائے اور ان کی پراڈکٹ کا ان کے نام پر تحفظ ہو۔ اس لیے پیٹنٹ وکیل یا قوانین کے ماہرین کی ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی ہے۔
اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈگری حاصل کرتے ہی یہ سب مل جائے گا۔ یقینا ایسا نہیں ہے اس کے لیے آپ کو اپنے اندر کچھ مہارتیں بھی حاصل کرنی ہوں گی جس میں سب سے پہلا خود اعتمادی، دوسرا اپنے شعبے پر عبور اور اس کا عملی تجربہ۔ اکثر طالب علم اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران مختلف طریقوں سے عملی تجربہ حاصل کرتے ہیں جس کا ایک طریقہ جو جزوقتی ملازمت ہوتا ہے۔
دوسرا اہم طریقہ دوسروں کے تجربات سے سیکھنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ آپ میں سیکھنے کی جستجو ہو اوراس کے لیے تیار ہوں، اگر ایسا ہے تو پھر انتظار مت کریں اور آنے والے سال میں یہ تین شعبے آپ کی قسمت بدل سکتے ہیں۔