شام میں باغیوں نے انتہائی برق رفتاری سے کیے گئے حملوں کے نتیجے میں الاسد خاندان کے 50 سالہ دور اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے آج دارالحکومت دمشق پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
26 نومبر کو اچانک شروع کی گئی پیش قدمی میں ہینۃ التحریر الشام کی سربراہی میں باغیوں نے حکومتی فوج کو حلب، ادلب ، حمص اور حما میں شکست دیتے ہوئے بشارالاسد کے فرار ہونے کے بعد آج ملک کا دارالحکومت دمشق بھی فتح کر لیا۔
ہینۃ التحریر الشام کے جنگجوؤں نے دارالحکومت میں وزارت دفاع، ائیر پورٹ اور سرکاری ٹی وی کی عمارات کا کنٹرول سنبھال لیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دمشق میں چند مقامات پر گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی جبکہ لوگ نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، عوام جشن مناتے ہوئے بڑی تعداد میں امیہ چوک پر جمع ہوگئے۔
جنگجو جب دمشق میں داخل ہوئے تو انہیں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ بشارالاسد کے فرار کے بعد لوگوں کئی سرکاری دفاتر میں پہلے ہی داخل ہوچکے تھے۔
بشارالاسد فرار ہو کر کہاں گئے؟
ادھر دنیا بھر کی پروازوں پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ فلائٹ ریڈار کے ریکارڈ کے مطابق ایک طیارہ دمشق ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے کے بعد مفرور صدر بشارالاسد کے علوی فرقے کے گڑھ کی جانب گیا اور پھر یو ٹرن لے کر کچھ منٹ تک مخالف سمت میں پرواز کرتے ہوئے نقشے سے غائب ہوگیا۔
سیاہ دور کا خاتمہ اور نئے دور کا آغاز
باغیوں کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر جاری بیان میں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کسی کے خلاف بھی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی، باغیوں نے فتح کو سیاہ دور کا خاتمہ اور نئے دور کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘آزاد شام’ کی سلامتی اور خود مختاری کا تحفظ کیا جائے گا۔
سرکاری ٹی وی پر بیان پڑھنے والے شخص نے کہا کہ ظالم بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا ہے، دمشق کی جیل سے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام جنگجو اور شہری آزاد ریاست شام کی املاک کا تحفظ اور دیکھ بھال کریں، شام زندہ باد‘۔
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا، پُرامن انتقال اقتدار کے پابند ہیں،وزیراعظم
دوسری جانب شامی وزیراعظم نے کہا ہے کہ مفرور صدر بشارالاسد سے ان کا آخری رابطہ ہفتے کی رات ہوا تھا، آخری بات چیت کے دوران صدر بشارالاسد کو صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا تھا اس پر کل بات کریں گے۔
وزیراعظم محمد غازی الجلالی نے کہا تھا کہ وہ اپنا گھر چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ریاستی اداروں کی نگرانی کے لیے دمشق میں رہیں گے جبکہ شامی حکومت کے 28 وزرا میں سے اکثر ملک میں ہی موجود ہیں۔
شامی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا، مذاکرات سے بغاوت روکنے کی امید تھی لیکن جس تیزی کے ساتھ حالات تبدیل ہوئے اس کے لیے ہم بالکل طرح تیار نہیں تھے، عوام میں خوف وہراس ہے لیکن تبدیلی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہینۃ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے، موجودہ حکومت ملک میں عام انتخابات اور پُرامن انتقال اقتدار کی پابند ہے۔
جنگجوؤں کے سرکاری اداروں میں داخل ہونے پر پابندی
ادھر ہینۃ التحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ دمشق میں حزب اختلاف کی تمام فورسز کو سرکاری اداروں پر قبضہ کرنے سے روک دیا گیا ہے، انہوں نے فائرنگ پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ انتقال اقتدار تک حکومتی ادارے وزیراعظم کی نگرانی میں رہیں گے۔
باغیوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ کسی بھی صورت شام میں موجود کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کریں گے۔
‘پیوٹن بھی اب بشارالاسد کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا’
ادھر امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس کی حمایت ختم ہونے کے بعد بشار الاسد شام سے بھاگ گیا ہے۔
ٹرمپ نے 3 بار روس کا نام لیتے ہوئے کہا کہ بشار الاسد کا حمایتی ولادی میر پیوٹن بھی اب انہیں بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔