قلندر تنولی
اسلام آباد سمیت ملک بھر میں اس وقت معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔ موٹر وے سمیت دیگر روڈ کھل چکے ہیں مگر ابھی تک 24 نومبر کی فائنل کال پر بہت سے اسرار کے پردے پڑے ہیں۔ مختلف ویڈیوز منظر عام پر آ رہی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں اگر کوئی سب سے زیادہ غصے کا شکار ہے تو وہ تحریک انصاف کا کارکنان ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ علی امین گنڈاپور اسلام آباد چائنہ چوک سے غائب ہونے کے بعد مانسہرہ میں منظر عام پر آئے مگر ابھی تک جو منظر عام پر نہیں آیا وہ بشری بی بی ہیں، ان کی بہن نے دبئی سے مختلف ٹیلی وژن چینل سے بات کرتے ہوئے سنگین الزامات عائد کیے ہیں کہ بشریٰ بی بی حبس بے جا میں ہیں۔ علی امین گنڈا پور اور تحریک انصاف کی دیگر قیادت کی جانب سے ابھی تک اس باے کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
چائنہ چوک میں ہوا کیا تھا۔ کیسے اور کیوں علی امین گنڈا پور کارکناں کو چھوڑ کر چلتے بنے؟ اس بارے میں علی امین گنڈا پور کا تو کہنا ہے کہ انھیں اغوا اور قتل کی کوشش کی گئی تھی مگر بشریٰ بی بی نے ابھی تک اس پر کچھ نہیں کہا ہے۔
ڈی چوک جانا اقدام خودکشی تھا۔
پاکستان سٹوریز کو تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے سنگجانی پر دھرنا یا جلسہ کرنے کی آفر کو تحریک انصاف کی قیادت بہتر آپشن سمجھ رہی تھی۔ 26 نمبر چونگی تک پہنچتے پہنچتے کارکناں تھک چکے تھے۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی، اگر یہ بات ماں لی جاتی تو سنگجانی میں کیمپ لگایا جا سکتا تھا۔ کارکناں کو آرام کا موقع دیا جاتا ہے۔
ایک اہم رہنما کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو بہت اچھا ہوتا ، سنگجانی میں مزید قافلے پہنچ جاتے۔ وہاں پر ساری لیڈر شپ اکھٹی ہوتی، آرام سے بیٹھتے، اپنی تعداد میں اضافہ کرتے اور پھر حکومت پر مزید دباؤ ڈالا جا سکتا تھا۔
ایک اور اہم لیڈر کے مطابق اٹک پل کراس کرنے کے بعد اور 26 نمبر چونگی پر پولیس کے سامنے کامیاب مزاحمت کے بعد بشریٰ بی بی یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ شاید سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سب کو شک کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کی ساری قیادت گیم کھیل رہی ہے اور وہ عمران خان کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اسی سوچ پر جب ان کے سامنے آپشن رکھا گیا تو بشری بی بی نے نہ صرف دوٹوک انکار کیا بلکہ وہاں پر خطاب شروع کر دیا اور کارکناں سے کہا گیا کہ آگے بڑھیں جس کے بعد کسی کے بس میں کچھ نہیں تھا اور بشریٰ بی بی کے اس رویے نے علی امین گنڈا پور سمیت سب کو بے بس اور لاتعلق کر دیا تھا۔
تحریک انصاف کے کارکنان غصے میں
چائنہ چوک، 26نمبر چونگی کے علاوہ کئی وڈیوز ایسی آئی ہیں جس میں تحریک انصاف کا کارکن علی امین گنڈا پور کی گاڑی کا گھیراؤ کیے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ علی امین کہتے ہیں کہ مجھے واش روم جانے دو تو جانے نہیں دیا جاتا۔
اس حوالے سے تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما کا کہنا تھا کہ اصل میں دو دفعہ دھرنا ختم کرنے کے بعد تحریک انصاف کے اندر سے علی امین گنڈاپور کے خلاف مہم چلائی گئی جس سے کارکناں بدظن ہوئے اور یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
رہنما کے مطابق سنگجانی یا کسی اور مقام پر دھرنا دے کر حکومت سے کئی مطالبات منوائے جا سکتے تھے مگر یہ موقع گنوا دیا گیا۔
حکومت کی جانب سے پہلے ہی واضح اور دو ٹوک کہہ دیا گیا تھا کہ ریڈ لائن کراس نہیں کرنی باقی چیزیں چلتی رہیں گی مگر جب ریڈ لائن کراس ہوئی یعنی ڈی چوک میں پہنچے، بشری بی بی کی ضد کو دیکھا گیا تو حکومت کی جانب سے یہ سمجھا گیا کہ لائن کراس ہو چکی ہے۔
علی امین گنڈا پور کی جانب سے آگے نہ بڑھنے پر تحریک انصاف کے کارکناں غصے میں آگئے جبکہ تحریک انصاف کی اکثر قیادت دھرنے میں شریک نہیں ہوئی جس پر کارکنان باقاعدہ مہم چلائے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کے تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے ٹی وی پروگرام میں کہا کہ جو خان کی کال پر احتجاج میں شریک نہیں ہوئے ان کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں ہے وہ جہنم میں جائیں گے۔ عمران خان نے پہلے ہی کہہ دیا تھا اور کیا کرسکتے ہیں ہم؟َ
کارکناں ایڈووکیٹ سلمان اکرم کی جاری کردہ ویڈیوزپر بھی شدید تنقید کر رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ وہ لاہور میں گھومتے رہے، اسلام آباد کیوں نہیں آئے۔
اس تنقید پر سلیمان اکرم راجہ نے وضاحت دی ہے کہ لاہور سے سب راستے بند تھے۔ وہاں سے نکلنا ممکن نہیں تھا جہاں بھی 20، 30 لوگ اکھٹے ہوتے لاٹھی چارج کیا جاتا۔ ان کی اس وضاحتی ویڈیو پر بھی تنقید کی گئی جس کے بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔
اسی طرح زرتاج گل، حماد اظہر بھی تنقید کی زد میں ہیں۔ ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ اب تیروں کا رخ تحریک انصاف کی قیادت کی طرف ہوگا۔
کیا کھویا کیا پایا
کئی غیر جانبدار تجزیہ کارون کا خیال ہے کہ فائنل کال اور اس کی عدم منصوبہ بندی اور بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف کو بظاہر ناقابل تلافی نقصاں پہنچ چکا ہے۔ اس وقت راولپنڈی، اسلام آباد میں سینکڑوں کارکنان گرفتارہیں کئی زخمی ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے لاشوں کا دعویٰ ہے مگر 4، 5 کے علاوہ زیادہ لاشیں منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول تحریک انصاف کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اس وقت کوئی بھی ایسا لیڈر باہر نہیں ہے جو کارکناں کو مطمئن کر سکے۔ تحریک انصاف کے کارکنان اور ووٹ بینک بنیادی طورپر عمران خان کا ہے۔ وہ جیل میں ہیں اور اب ان کے رابطے بھی محدود کردیے گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بشریٰ بی بی، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب پر دھشتگردی اور قتل کے سنگین مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ عمران خان پر بھی مزید مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ اب اسلام آباد سمیت پورے ملک میں امن ہے کسی بھی جگہ پر کچھ نہیں ہو رہا۔ یہ صورتحال بتانے کے لیے کافی ہے کہ اب ہر چیز حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر تحریک انصاف پر امن رہتی، بروقت فیصلے کیے جاتے۔ اپنے کارکناں کے تحفط کا خیال رکھتے۔ دھرنے سے پہلے ماحول کو اتنا نہ گرماتے یا کم از کم جنازوں والی باتیں نہ کرتے اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے توحکومت پسپائی اختیار کر رہی تھی تو شاید صورتحال مختلف ہوتی مگر اب صورتحال کچھ اور ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اس صورتحال سے کیسی نمٹتی ہے۔