محمد نوید خان
پاکستان کے قبائلی علاقے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 50 سے زائد ہلاکتوں کے بعد مقامی قبائل کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔
پاکستان سٹوریز کے مطابق ضلع کرم کے تین علاقے خاص طور پر شدید ترین جھڑپوں کی زد میں ہیں ۔
نمائندہ پاکستان سٹوریز کا کہنا ہے کہ بگن قبائل، علی زئی قبائل، کونج علیزئی اور مقبل قبائل کے علاوہ یہ لڑائی صدہ تک جا پہنچی ہے۔
صدہ میں خار کلے اور بالش خیل قبائل کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کرم پولیس کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جامعہ کی شام جاں بحق افراد کی تدفین کے بعد جمعے کی علیزئی کے علاقے کے طوری قبائل کی جانب سے لشکر کشی کے بعد اب لوئر کرم میں تین مقامات پر فریقین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس میں بھاری ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔
لشکر کی جانب سے بگن بازار میں پیٹرول پمپ، سکول، بازار اور مقامی آبادی میں آگ لگا دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
لوئر کرم کے علاقے مندروی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار آنے والی گاڑیوں کے قافلے پر اس سڑک پر حملہ کیا گیا جسے کئی ہفتوں کی بندش کے بعد حال ہی میں کھولا گیا تھا۔
کانوائے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’ہم 5 سے 6 اہلکار تھے، پتا نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی۔ ہمارا ایک ساتھی بھی فائرنگ سے زخمی ہوا‘
مسافروں میں شامل پیر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ’اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی، بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا آج وہ کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘
یاد رہے کہ ضلع کرم میں مسافر ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے پولیس سیکیورٹی میں قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔
اسے قبل 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں مسافر وینوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد سے پاڑہ چنار اور پشاور کے درمیان روڈ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند تھی۔