قلندر تنولی
تحریک انصاف کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج میں اب چند دن ہی باقی ہیں۔ تحریک انصاف قیادت کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بانی تحریک انصاف کی یہ فائنل کال ہے اور وہ اب اپنے مطالبات منوا ہی کر واپس آئیں گے۔ ان مطالبات میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کے جیلوں میں قید رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی اور 26 ویں آئینی ترمیم کی واپسی اور دیگر مطالبات شامل ہیں۔
تحریک انصاف کی قیادت بالخصوص وزیراعلیٰ پختونخواہ علی امین گنڈا پور بہت فعال ہیں۔ گزشتہ 48 گھنٹوں میں ان کی اڈیالیہ جیل میں عمران خان سے دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے متضاد بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے لیے علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر کو اختیار دیا گیا ہے۔
دوسرا بیان آیا کہ مذاکرات صرف اور صرف عمران خان ہی سے ہو سکتے ہیں۔ اس طرح تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے دیگر متضاد بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہوئی کہ عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے احتجاج کی منصوبہ بندی کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں خود تحریک انصاف کے اجلاس کی صدارت کی اور ہدایات جاری کی تھیں۔
یہ سب کچھ 24 نومبر کے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بشری بی بی کی جانب سے دی جانے والی ہدایات اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے متضاد بیانات فائنل کال کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا ر ہے ہیں۔
باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ علی امین گنڈاپور کو واضح طورپر بتا دیا گیا ہے کہ اس احتجاج کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔ علی امین گنڈا پور کو یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر وہ اس احتجاج میں پختونخواہ کے سرکاری وسائل ریسیکو، پولیس، ٹی ایم اے اہلکاروں کے استعمال کو ریاست قانونی طریقے سے روک دے گی۔
تحریک انصاف کے اندر کی صورتحال کیا ہے۔ اس بارے میں کئی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی ساری امیدیں پختونخوہ اور صوبائی حکومت سے ہیں جبکہ پنجاب سے قیادت اور کارکناں سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے مبینہ طور پر بشریٰ بی بی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر پارٹی میں رہنماؤں کا مستقبل احتجاج سے مشروط کر دیا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق پختونخواہ میں بھی کارکناں بد دل ہوچکے ہیں۔ صورتحال ہے کہ کئی نوجوانوں کو ان کے خاندانوں اور ماں باپ نے کہا ہے کہ بس بہت ہوچکا اب مزید پریشانیاں برداشت نہیں کر سکتے۔ کئی کارکناں جیلوں میں ہیں ان کو قانونی مدد نہیں مل رہی، قومی اور صوبائی ممبران اسمبلی کے لیے اپنے حامیوں کو بھی نکالنا مشکل ہے جبکہ کئی ایک بالکل خاموش ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ ممبران اسمبلی کا جو واٹس ایپ گروپ ہے اس میں بھی ممبران بالکل چپ ہیں اور کئی اراکین اسمبلی کی جانب سے بشریٰ بی بی کی کی جانب سے دی جانے والی ہدایات کا سخت برا منایا گیا ہے۔
اس کے ساتھ حکومت بھی مکمل طور پر فعال ہوچکی ہے۔ احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے پنجاب بھر سے پولیس کے دستے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ اس دفعہ حکومت ایک مختلف حکمت عملی اختیار کر رہی ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پختونخواہ سے آنے والے قافلے کو اٹک سے آگے نہیں جانے دیا جائے گا۔ اس کے لیے خصوصی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
اس بارے میں ڈی پی او اٹک کا ایک وڈیو بیان بھی وائرل ہو رہا ہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے 24 نومبر کا احتجاج مشکل صورتحال ہے۔ پہ در پہ احتجاج اور مظاہروں سے کارکناں تھک چکے ہیں۔ ان کا مورال اچھا نہیں ہے جبکہ دوسری جانب حکومت اس فائنل کال کو فائنل ہی لے رہی ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ اس کے بعد دوبارہ کوئی دوسری کال نہ ہو۔