قلندر تنولی
جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے سرکاری نشتر ہسپتال میں گردوں کے امراض میں مبتلا مریض ڈائیلیسز کرواتے ہوئے ایچ آئی وی میں مبتلا ہوگئے، یہ وہ مریض ہیں جو اپنے زندگی کی سانسوں کے لیے لڑ رہے تھے مگر اب ایک ایسی صورتحال کا شکار ہوگئے ہیں جس کا الفاظ میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا اس بارے میں محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے اعلیٰ سطح کی تحقیقات جاری ہیں جس کی ابتدائی رپورٹ میں واقعہ پیش آنے کی تصدیق کی گئی ہے۔
ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک 40 سالہ مریض جو کہ ایچ آئی وے پازیٹو تھا ایمرجنسی میں ڈائیلیسز کے لیے ہسپتال آیا۔ اس کا ڈائیلیسز کیا گیا مگر وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ اس کی موت کے بعد ڈائیلیسز یونٹ کے ڈاکٹروں اور عملے کو پتا چلا کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو تھا۔
جس مشین پر اس متوفی کا ڈائیلیسز کیا گیا تھا اسی پر دیگر مریضوں کا بھی ڈائیلیسز کیا گیا تھا۔ نشتر ہسپتال انتظامیہ کے پاس ایسے 25 افراد کی فہرست ہے جن کا اسی مشین پر ڈائیلیسز کیا گیا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ جب دیگر مریضوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو مزید 25 مریضوں میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہونے کا انکشاف ہوا۔ یہ واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا تھا جس کو خفیہ رکھا گیا تھا۔
ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ متاثرہ مریضوں کے خاندانوں کی بھی سکریننگ کی گئی ہے یا نہیں اور یا ان کے خاندان کے دیگر لوگ تو متاثر نہیں ہوئے۔
ابتدائی طور پر بتایا جا رہا ہے کہ موت کا شکار ہونے والے مریض کا علاج کرتے ہوئے ڈاکٹرز، طبی عملہ اور انتظامیہ نے عفلت کا مظاہرہ کیا اور بعد میں بھی مناسب اقدامات نہیں کیے تھے۔
ایچ آئی وی ایسا وائرس ہے جو ایڈز کی لاعلاج بیماری کا سبب بنتا ہے لیکن مسلسل علاج کروانے سے بعض اوقات ایچ آئی وی ایڈز میں تبدیل نہیں ہوتا تاہم کچھ افراد میں ایچ آئی وی کی شدت زیادہ ہونے سے وہ جلد ایڈز کا شکار ہو کر چل بستے ہیں۔
ایچ آئی وی کا وائرس عام طور پر غیر محفوظ جنسی تعلقات، قریبی جسمانی تعلقات سمیت متاثرہ شخص میں استعمال ہونے والی سرنج سمیت دوسرے طبی آلات کی وجہ سے بھی منتقل ہوسکتا ہے۔
ڈائیلیسز کے دوران مریض کے جسم میں متعدد سرنجز داخل کی جاتی ہیں اور ممکنہ طور پر انہی سرنجز کے ذریعے دوسرے مریضوں میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہوا۔