محمد نوید خان
چند سال قبل لاہور پولیس کو داتا دربار کے عین سامنے، اسلام پورہ، شاد باغ، راوی روڈ سے کچھ نشے کے عادی افراد اور بھیک مانگنے والوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ یہ لاشیں تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ملتی ہیں۔ ابتدائی میں ان لاشوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ویسے بھی لاہور میں کون کس پر توجہ دیتا ہے۔
مگر پولیس تفتیش کار اس وقت چونک پڑے جب یہ سمجھ میں آیا کہ یہ سب قتل ایک ہی طریقے سے کیے گئے تھے۔ یعنی ان کی گردنیں توڑ کر قتل کیا گیا تھا۔ یہ انداز کسی عام مجرم یا جرائم پیشہ کا نہیں ہو سکتا تھا بلکہ مجرم کوئی شاطر ہی ہوسکتا تھا۔
قریب ہی کے علاقوں شاد باغ اور پھر راوی روڈ سے بھی ایک برس پہلے دو لاشیں ملی تھیں۔ ان دونوں واقعات میں بھی طریقہ واردات ایک جیسا تھا۔ ان کو گردن کی ہڈی توڑ کر قتل کیا گیا تھا۔ راہ چلتے افراد کو گردن توڑ کر قتل کرنا عمومی مجرموں کا طریقہ کار نہیں تھا۔ پہلے مقامی پولیس ان مقدمات کی تفتیش کرتی رہی مگر کوئی کامیابی نہ ملی تو یہ تحقیقات کرمنل انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے سپرد کر دی گئی تھیں۔
جب سی آئی اے نے واقعہ کی تفتیش شروع کی تو پتا چلا کہ ان واقعات کے پیچھے کوئی عادی مجرم یا ڈکیتی کی واردات نہیں بلکہ لاہور کا ایک مالشیا تھا جو قتل کر کے تسکین حاصل کرتا تھا اور انتہائی شاطر تھا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس تک کیسے پہنچے یہ آگے چل کر دیکھتے ہیں پہلے دیکھتے ہیں کہ اس مالشیے کے ہاتھوں قتل ہونے والے تھے کون؟
نشانہ بننے والے مالشیے اور نشے کے عادی افراد تھے
جب تفتیش کا آغاز ہوا تو پتا چلا ہے کہ بھاٹی گیٹ سے جس کی لاش ملی وہ علاقے میں بھولا مالشیا کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا اور داتا دربار کے علاقے میں گھومتا پھرتا پایا جاتا تھا۔ یہ کون تھا کہاں سے آیا اس بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔
اسلام پورہ کے علاقے سے ملنے والے لاش فہیم نامی نوجوان کی تھی۔ جو نشے کا عادی تھا اور اکثر غائب ہو جاتا تھا۔ اب یہ سوال بہت تیزی سے گردش کر رہا تھا کہ ان نشے کے عادی افراد کو کون قتل کر رہا ہے۔ یہ ہی نہیں بلکہ ایسا ہی ایک قتل راولپنڈی میں بھی ہوا تھا۔
سی آئی اے کے پاس نہ تو کوئی گواہ تھا اور نہ کوئی شواہد اور قتل کی ٹھوس وجوہات۔ جب تفتیش کے یہ سب روایتی طریقے نہیں چل پا رہے تھے تو پھر پولیس نے موبائل فون اور جیو فینسنگ کا طریقہ اختیار کرنا شروع کیا۔
جیو فیسنگ کے زریعے سے پتا چلانے کی کوشش کی گئی کہ ان چاروں بلکہ پانچوں قتل کی وارداتوں کے وقت کون جائے وقوعہ پر موجود تھا۔ اس کے علاوہ علاقے میں موجود پولیس کے مخبروں سے مدد حاصل کی گئی اور مشکوک لوگوں کی ایک فہرست تیار ہوئی جس میں ان قتل کے واقعات میں ملوث مجرم بھی شامل تھا جو تفتیش کاروں سے بچ نہ سکا۔
گردن کا منکا توڑ دیتا تھا
پولیس نے جب ان مشکوک افراد کی نگرانی کی تو پتا چلا کہ اس میں ایک نوجوان اعجاز عرف ججی سب سے زیادہ مشکوک ہے اور وہ بہت زیادہ پریشان بھی تھا جس پر اس سے مزید تفتیش کی گئی تو ججی نے اقرار جرم کر لیا۔
اعجاز عرف ججی نے بتایا کہ تین قتل اس نے خود کیے اور دو کی منصوبہ بندی میں شامل تھا جو کہ اس کے ساتھ واردات میں شریک لوگوں نے کیے تھے۔
اعجاز عرف ججی نے پولیس کو طویل بیان دیا جو کہ عدالت اور پولیس کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس نے بتایا وہ اپنے شکار کو مالش کے بہانے پارک میں لے کر جاتا وہاں پر چھری کے وار کر کے یا اس کی گردن کا منکا توڑ کر قتل کرتا اور اس کے پاس موجود تمام ایشیا لے کر غائب ہو جاتا تھا۔
اعجاز عرف ججی کے مطابق مالش کے دوران وہ اپنے شکار کو کہتا کہ وہ اپنی گردن کو ڈھیلا کریں اور پھر وہ اپنا گھٹنا گردن کے پیچھے رکھ کر اس کا منکا توڑ دیتا اور تڑپتے ہوئے شخص کو چھوڑ کر فرار ہو جاتا۔ مالشیا ہونے کی بناء پر وہ اس طریقے کا ماہر تھا۔
اعجاز عرف ججی نے بتایا کہ اس نے اسلام پور میں فہیم کا قتل چھری کے وار کر کے کیا تھا جبکہ اس نے اس قتل سے تین سال پہلے ایک راہ گیر کو گردن کا منکا توڑ کر قتل کیا تھا۔ راہگیر کو قتل کرنے کے لیے اس کو پیچھے سے دبوچا، گردن کے پیچھے اپنا گھٹنا رکھا اور گردن کو دونوں ہاتھوں سے پھیر کر توڑ دیا تھا۔
یہ واردات اس نے راولپنڈی کے علاقے فیض آباد میں کی تھی جس کے بعد لاہور منتقل ہوا اور پھر مزید قتل کیے تھے۔
اعجازعرف ججی بچپن ہی سے جرائم اور نشے کا عادی تھا۔ وہ یہ سب کچھ اپنے نشے کی لت کو پورا کرنے کے لیے کرتا تھا۔ مالشیا تھا اس لیے گردن توڑنے کا یہ طریقہ جانتا تھا جس کو اس نے جرائم کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔