لاہور کے نجی کالج کی طالبہ کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے خلاف صوبائی دارالحکومت میں دوسرے روز بھی احتجاج جاری رہا جہاں طلبہ سمیت شہری اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج رہے۔
گزشتہ روز پرتشدد مظاہروں میں 28 طلبہ کے زخمی ہونے کے بعد دی پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے پنجاب اسمبلی تک انسداد ہراسانی ریلی کا انعقاد کیا جس میں طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ احتجاج اور سوشل میڈیا پر مبینہ واقعے کی خبر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ایک سیکیورٹی گارڈ کو گرفتار کیا تھا جس سے تحقیقات جاری ہیں۔
دوسری جانب پنجاب پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’اگر کسی کے پاس لاہور میں ہونے والے مبینہ ریپ کے حوالے سے معلومات ہے تو وہ 15 یا وومین سیفٹی ایپ کے ذریعے حکام کو فوری طور پر آگاہ کرے، اس حوالے سے اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
دوسری جانب کالج کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز نے مبینہ ریپ کیس کے حوالے سے جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ ہم نے سی سی ٹی وی کا مکمل ریکارڈ دیکھا ہے لیکن ہمیں کچھ نہیں ملا، کالج انتظامیہ نے بیماری یا دیگر وجوہات کے باعث کالج سے غیر حاضر کئی طلبہ کو فون کالز بھی کیں، ہم کئی پولیس اسٹیشنز میں گئے لیکن وہاں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ہسپتال کا نام لیا جا رہا تھا، ہم نے کئی ہسپتالوں کو چیک کیا لیکن کچھ نہیں ملا، طلبہ سی سی ٹی وی فوٹیجز کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن پولیس ہمارا سی سی ٹی وی کا تمام ریکارڈ لے گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ کا کہنا ہے کہ مبینہ زیادتی کے واقعے کے وقت بیسمنٹ کا دروازہ بند تھا لیکن گلبرگ کیمپس کے تہہ خانے میں کوئی دروازہ موجود ہی نہیں ہے، تہہ خانے کا داخلی راستہ ہر وقت کھلا رہتا ہے کیونکہ وہاں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے چھٹیوں پر گئے ایک سیکیورٹی گارڈ کو بلا کر حراست میں لیا ہے، گارڈ کو صرف اس وجہ سے حراست میں لیا گیا کیونکہ سوشل میڈیا پر اس کا نام لیا جا رہا تھا۔
طالبہ کا تحریری بیان، واقعے کی تردید
ادھر مبینہ متاثرہ طالبہ نے تحریری بیان میں ایسے کسی بھی واقعے کی تردید کرتے ہوئے فیک نیوز پھیلانے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
تحریری بیان میں طالبہ نے کہا کہ وہ 2 اکتوبر کو پیر میں چوٹ لگنے سے منہ کے بل گری تھی جس کے بعد دوائیوں سے افاقہ نہ ہونے اور سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اسے نجی ہسپتال کے آئی سی یو میں منتقل کیا گیا تھا۔
تحریری بیان کے مطابق 11 اکتوبر کو ڈاکٹرز نے اسے ڈسچارج کرتے ہوئے 15 روزہ آرام کا مشورہ دیا تھا، بیان میں طالبہ نے مطالبہ کیا کہ من گھڑت خبریں پھیلانے والوں کو سخت سزا دی جائے۔
قبل ازیں لاہور ڈیفنس کی اے ایس پی شہربانو نقوی نے مبینہ طالبہ کے والد اور چچا کے ویڈیو میں واقعے کی تردید کی تھی۔
ویڈیو میں پولیس افسر کے موجود شخص کا کہنا تھا کہ لاہور کالج میں جو واقعہ ہوا ہے، اس کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں اس میں ہماری بچی کا نام لیا جارہا ہے لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں ہے، ہماری بچی گھر کی سیڑھیوں سے گری جس سے ان کی کمر میں چوٹ آئی اور انہیں آئی سی یو لے جایا گیا۔
پنجاب اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں تلخ کلامی
لاہور میں مسلسل دو روز سے جاری احتجاج کا رنگ پنجاب اسمبلی میں بھی نظر آیا جہاں اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن اراکین میں تلخ کلامی ہوئی۔
ایوان میں وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نجی کالج میں ہونے والے مبینہ واقعے کو اپوزیشن کی جانب سے استعمال کرنے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس بچی کو ریپ متاثرہ کہا جا رہا ہے اس کی تین بہنیں ہیں اور ان کی شادیاں ہونی ہیں، وہ سیڑھیوں سے گری ہے جس کا تماشا بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے لوگ اسلام آباد نہیں جا سکے تو اب لاہور میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے جو 48 گھنٹے میں رپورٹ دے گی۔
افوہوں اور جعلی خبروں کے پیچھے کس کا ہاتھ؟ ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کر دیں
ادھر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے طالبہ کے ریپ کی افواہوں اور احتجاج کے بعد کالج کے پرنسپل کی درخواست پر سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل لاہور نے طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کی ڈس انفارمیشن پھیلانے کی تحقیقات کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 رکنی ٹیم تشکیل دے دی۔
تحقیقاتی ٹیم غلط معلومات پھیلانے اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا کرنے والوں کی شناخت کرے گی۔
ایف آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ غلط معلومات پھیلانے والے عناصر کی شناخت اور انہیں سزا دلوانے کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جائیں گے۔