ہفتہ, دسمبر 14, 2024
ہومٹاپ اسٹوریپولیس اہلکاروں کا احتجاج، شرپسند عناصر معاملات کو خراب کرنے کی کوشش...

پولیس اہلکاروں کا احتجاج، شرپسند عناصر معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آئی جی پختونخوا

آئی جی خیبرپختونخوا نے لکی مروت کے بعد بنوں اور باجوڑ میں پولیس کے احتجاج پر کہا ہے کہ کچھ عناصر معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صوبائی پولیس چیف اختر حیات گنڈاپور نے کہا کہ صوبے میں دہشتگردی کے خلاف پولیس اور پاک فوج کے درمیان تعاون جاری رہے گا کیونکہ اس کے بغیر دہشتگردی کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی، دونوں کا مشترکہ مقصد پرامن پاکستان اور پرامن خیبر پختونخوا ہے۔

آئی جی نے دعویٰ کیا کہ پولیس فورس کے اندرونی اور کچھ بیرونی عناصر معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ پختون روایات کے مطابق مشران کے ذریعے ان عناصر کو سمجھایا جائے۔

اختر حیات گنڈاپور نے کہا کہ 2024 کے پہلے 8 ماہ کے دوران پختونخوا پولیس اور سی ٹی ڈی نے 177 دہشتگردوں کو ہلاک کیا، مشترکہ کارروائیوں کا مقصد دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا پولیس منظم ادارہ ہے، کچھ لوگ سامنے ہیں اور کچھ لوگ پس پردہ سازش کر رہے ہیں، اگر ان کے کوئی جائز مطالبات ہیں تو وہ بیان کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار ہوتا ہے۔ کچھ شر پسند عناصر پولیس کی شہادتوں کو غلط استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔

اختر حیات گنڈاپور نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام، پولیس، سیکیورٹی فورسز اور ایجنسیز نے مل کر کام کیا ہے۔ کچھ عناصر کو یہ مشترکہ مثبت تعاون پسند نہیں ہے۔

پولیس کیوں سراپا احتجاج ہے؟

واضح رہے کہ ساتھیوں کی ٹارگٹ کلنگ اور مسلح افراد کے حملوں کے خلاف خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے جاری احتجاج کے چوتھے ضلع بنوں اور باجوڑ میں بھی پولیس اہلکاروں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں پولیس اہلکاروں کا سب سے بڑا احتجاج ضلع لکی مروت میں گذشتہ چار روز سے جاری ہے اور جمعرات کو مقامی کاروباری کمیونٹی نے بھی شٹرڈاؤن ہڑتال کر کے اس احتجاج میں شرکت اختیار کی ہے۔

بنوں میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کی بابت بنوں پولیس کے ترجمان بشیر احمد نے بتایا کہ اہلکاروں نے پولیس لائن کے باہر جمعرات کی صبح احتجاج اس وقت شروع کیا جب کانسٹیبل نور عالم خان کو تھانہ ڈومیل کی حدود میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ آئے روز پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے۔

پولیس ترجمان کے مطابق اہلکاروں کا مطالبہ ہے کہ ہلاک ہونے والے کانسٹیبل کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔

دوسری جانب باجوڑ پولیس کے مطابق گذشتہ روز ضلع باجوڑ میں پولیو ٹیم پر ہونے والے حملے میں پولیس اہلکار کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی مجموعی تعداد سو ہو چکی ہے جس کے بعد ہی پولیس لائن ہیڈکوارٹرز خار کے سامنے احتجاج کا فیصلہ کیا گیا۔ باجوڑ پولیس کا مطالبہ ہے کہ ’ہمارے اختیارات واپس کیے جائیں اور ضلع میں فوج کومحدود کیا جائے۔‘

واضح رہے کہ رواں ماہ کے دوران لکی مروت میں پانچ پولیس اہلکاروں کی نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے اس احتجاج کے باعث پشاور اور صوبے کے جنوبی اضلاع کو کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے جوڑنے والی انڈس ہائی وے پر ٹریفک بند ہے۔

پولیس اہلکاروں کے احتجاج کو مقامی آبادی کی حمایت بھی حاصل ہے اور جمعرات کو اہلکاروں کے دھرنے کی حمایت میں لکی مروت میں شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی جا رہی ہے اور کاروباری مراکز بند ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کر رہے ہیں تاہم جمعرات کی صبح تک یہ بات چیت بے نتیجہ رہی ہے اور مظاہرین مُصر ہیں کہ جب تک اُن کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے دھرنا جاری رہے گا۔

لکی مروت میں احتجاج کرنے والے پولیس اہلکاروں کی جانب سے حکام سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رُکن سب انسپکٹر انیس الرحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر ایک جانتا ہے کہ لکی مروت میں دہشت گردوں کی تعداد دو سو سے زیادہ نہیں۔ فوج کی ایک بڑی تعداد لکی مروت میں بیٹھی ہے لیکن آج تک ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔‘

بی بی سی نے اس دعوے اور الزام پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر سمیت خیبرپختونخوا حکومت اور آئی جی پولیس خیبرپختونخوا سے بھی رابطہ کیا تاہم اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران لکی مروت سمیت خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع بشمول بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور کلاچی میں پولیس اہلکاروں پر حملوں اور اُن کے اغوا کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگست میں جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چھ ماہ کے دوران خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 220 اہلکار مختلف واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں فوج، پولیس، ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔

سب انسپکٹر انیس الرحمن نے کہا کہ ’روز ہمارے جوان مارے جا رہے ہیں اور پورے کا پورا خاندان ہی تباہ ہو جاتا ہے، بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔‘

حالیہ صورت حال کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم اس صورتحال کو برداشت نہیں کر سکتے، ہم اپنے جوانوں کی لاشوں کو نہیں اٹھا سکتے۔‘

’جرم، دہشت گردی کے خلاف لڑنے سے نہیں ڈرتے۔ ہم پہلے بھی اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے لیے لڑے ہیں، قربانیاں دی ہیں، اب بھی لڑ سکتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں۔‘

نے دعوی کیا کہ ’فوج اور پولیس افسران کے مطابق ہر ایک کو پتا ہے کہ اس وقت لکی مروت میں دہشت گردوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔‘

سب انسپکٹر انیس الرحمان کا کہنا تھا کہ ’ہم کہتے ہیں کہ فوج کو لکی مروت میں محدود کیا جائے یا ان کو لکی مروت سے نکالا جائے، پولیس خود دہشت گردوں کو ختم کر دے گی اور امن و امان بحال کر دے گی۔‘

’ہم چاہتے ہیں کہ پولیس فورس کی ٹارگٹ کلنگ ختم ہو، صرف ہمارے اختیارات بحال ہو جائیں تو پولیس فورس خود ہی دہشت گردوں کو قانون کے کہڑے میں کھڑا کر دے گی۔‘

متعلقہ خبریں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

- Advertisment -

مقبول ترین