نیوز ڈیسک
بلوچستان کے ضلع گوادر میں فورسز کے اہلکاروں پر ہجوم کے حملے میں ایک سپاہی شہید جب کہ افسر سمیت 16 اہلکار زخمی ہو گئے۔
پاک فوج کے کے مطابق حملہ نام نہاد بلوچ راجی موچی کی آڑ میں ایک پرتشدد ہجوم نے کیا جس میں سپاہی شبیر بلوچ شہید اور افسر سمیت 16 فوجی زخمی ہوئے تاہم سیکیورٹی فورسز نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ امن کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانےکے لیے پرعزم ہیں، پر تشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں، شہری پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔
دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ایک مخصوص ٹولا ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا چاہتا ہے، ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ہمارا تحریری معاہدہ ہوا ہے، تحریری معاہدہ ہے کہ جب دھرنا دیں گے، اجازت لی جائے گی، جب انہوں نے ہماری بتائی گئی جگہ پر جلسہ کرنا ہی نہیں تو پھر اجازت کس چیز کی مانگی تھی؟
وزیر اعلیٰ نے مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ جو بات کرنا چاہتا ہے حکومت پاکستان اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن کسی کو قتل وغارت کی اجازت نہیں دے سکتے۔
انہوں نے کہا کہ آج مظاہرین کے حملے میں ایف سی کے 16 جوان زخمی ہیں، ایک جوان کی آنکھ ضائع ہوچکی ہے۔ ضروری ہے کہ تاریخ کو درست کیا جائے، جب پاکستان اور بھارت بنائے گئے تو ان ممالک میں موجود ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ جس ملک کے ساتھ چاہیں، الحاق کریں۔
انہوں نے کہا کہ جس برطانوی ایکٹ کے تحت بر صغیر کی تقسیم ہوئی اس میں لکھا ہوا ہے کہ ریاستوں کو آزاد حیثیت برقرار رکھنے کا اختیار نہیں دیا گیا، انہیں کہا گیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ شامل ہوں یا پاکستان کے شامل ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ قلات کس طرح سے ملک میں شامل ہوا ، اس کا حوالہ خان آف قلات نے اپنی کتاب میں دیا، جس معاہدے کی بات کی جا رہی ہے، 1973 کے آئین کے بعد کسی قسم کا پرانا معاہدہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
حملے شہید اہلکار کی نماز جنازہ کے بعد گفتگو میں صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو کا کہنا تھا کہ شرپسندوں نے ایک بار پھر حکومت کی برداشت کا جواب نے دہشتگرد بن کردیا، مظاہرین کا مقصد لاپتا افراد نہیں بلکہ دشمن ایجنڈ ہے۔