پاکستان سٹوریز
پاکستان اور چین کے سرحدی علاقے سست میں سیلز اور انکم ٹیکس کے خلاف گلگت بلتستان کے تاجروں کے احتجاج کے چوتھے روز مشتعل تاجروں نے کسٹم کاونٹر اور امری گیشن کو بند کر دیا جس کے بعد بارڈر پر مبینہ طور پر کاروباری سرگرمیاں اور آمد ور فت بند ہوچکی ہے۔
سست بارڈر پر تجارت اور آمدورفت سال کے 6ماہ اپریل سے لے کر نومبر تک ہوتی ہے جبکہ اس کے بعد برفباری کی وجہ سے تجارت اور آمد ورفت بند ہوجاتی ہے۔ سست بارڈر کو دنیا کا بلند ترین بارڈر قرار دیا جاتا ہے جہاں ہر سال سیاحوں کی بڑی تعداد بھی جاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سست بارڈر پر 6 ماہ کے دوران سامان سے لدے ایک ہزار کنیٹرز آتے ہیں، واضح رہے کہ پاکستان اپنی ضروریات کے لیے زیادہ تر انحصار چین سے درآمدات پر کرتا ہے۔
سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس خاتمے کے لیے گلگت بلتستان اسمبلی نے بھی قرارداد منظور کی تھی جس پر حکومت گلگت بلتستان نے ٹیکس ختم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا۔
افسر جان ہنزہ سمال چیمبر آف کامرس انڈسڑی کے ڈائریکٹر فار بارڈر ٹریڈ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قانونی اور اخلاقی طورپر گلگت بلتستان اور سست بارڈر سے ہونے والی تجارت پر انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا مگر ہم سے طویل عرصے سے یہ ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں جو کہ گلگت بلتستان کے تاجروں کے ساتھ ظلم ہے ، ہم نے مختلف فورمز پر آواز اٹھائی اور اب مجبور ہو کر دھرنا دیا ہے۔
افسر جان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 247 کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے۔ پاکستان نے اس کی متنازعہ حیثیت کو قبول کیا ہے، پاکستان گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا انتظام سنبھال سکتا ہے اور وہاں کے لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرسکتا ہے مگر وہاں کے لوگوں پر ٹیکس نافذ نہیں کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس پہلی مرتبہ پرویز مشرف کے دور میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس وقت آئین معطل تھا۔ ایمرجنسی نافذ تھی ہم اس وقت سے احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔
افسر جان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم ٹیکس نہیں دیتے، تجارت کے دوران کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسز ادا کیے جاتے ہیں مگر جو ٹیکس ہم پر لاگو ہی نہیں ہیں ان کو ادا کرنے کا کوئی جواز نہیں ، ان ٹیکسوں کے ادا کرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور غریب عوام پر بوجھ پڑتا ہے۔
افسر جان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد جب جمہوری حکومتیں آئیں تو ہم نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا۔ ان کا دعوی تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عمل در آمد نہیں کیا جارہا ہے جس بنا پر مجبور ہو کر احتجاج کررہے ہیں۔
سست بارڈر پر تاجروں کے احتجاج کے چوتھے روز گلگت بلتستان اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر محمد کاظم میثم نے بھی دھرنے میں شرکت کی۔
انھوں نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حقوق مفت میں نہیں ملتے ہیں ان کو چھینا جاتا ہے۔ ہم پر امن لوگ ہیں امن چاہتے ہیں مگر مسلسل قوانین اور آئین کی خلاف ورزی کرکے ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم احتجاج کریں۔
محمد کاظم میثم کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے وفادار ہیں ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان ترقی کرے مگر بدقسمتی سے ایسے فیصلے کیے جارہے ہیں جن کے نتیجے میں اب عوام اور تاجروں میں اشتعال ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس ختم کیا جائے ورنہ احتجاج اور دھرنا جاری رہے گا۔