پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ڈی ایس پی علی رضا کو نامعلوم مسلح افراد نے نشانہ بنا کر قتل کردیا ہے۔
واقعے میں قریبی عمارت میں تعینات سیکورٹی گارڈ کے فرائض سر انجام دینے والا سیکورٹی گارڈ بھی زخمی ہوا جو بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
کراچی پولیس نے بتایا کہ ڈی ایس پی کو کو کریم آباد، بلاک ون میں شکیل کارپوریشن کے قریب نشانہ بنایا گیا۔
کراچی سی ٹی ڈی کے مطابق علی رضا نے مختلف شدت پسند اور کالعم تنظیموں کے خلاف کام کیا تھا۔
وہ 10 سال قبل بم دھماکے میں مارے جانے والے ایس ایس پی چوہدری اسلم کے قریبی ساتھی تھے۔
کراچی پولیس کے مطابق علی رضا اکثر اوقات کریم آباد جاتے تھے کیونکہ یہ ان کا آبائی علاقہ تھا۔ وقوعہ والے روز بھی جیسے ہی وہ اپنی بلٹ پروف گاڑی سے اترے، پہلے سے گھات لگائے دو موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔
ہسپتال کے مطابق علی رضا کو سینے، گردن اور سر میں گولیاں لگیں جبکہ ان کے جسم سے بھی ایک گولی برآمد ہوئی۔
آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے ڈان کو بتایا کہ سی ٹی ڈی کے مقتول ڈی ایس پی نے پورا کیریئر سی ٹی ڈی میں گزارا، وہ نہ صرف ٹی ٹی پی اور فرقہ وارانہ گروپوں بلکہ لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم لندن کے کارکنوں کے خلاف بھی سرگرم رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایس پی علی رضا مختلف ہائی پروفائل کیسز پر کام کر چکے تھے اسی لیے فی الوقت کسی کو مورد الزام ٹھہرانا یا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ قتل محرم الحرام کی آمد کے پیش نظر تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں مختلف گروہوں کے خلاف کام کرنے کے پس منظر کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
غلام نبی میمن نے کہا کہ مقتول ڈی ایس پی کو گارڈز لے جانا پسند نہیں تھا کیونکہ شاید وہ رازداری کو ترجیح دیتے تھے۔
آئی جی نے بتایا کہ مقتول افسر کریم آباد کے علاقے میں باقاعدگی سے جایا کرتے تھے اور ہو سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف وسیع پیمانے پر کام کے باوجود مسلسل اسی جگہ کا دورہ کرنا ان کی کمزوری بنی ہو۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعجاز شیخ نے بتایا کہ موٹر سائیکل سوار دو ملزمان نے 11 فائر کیے ، جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کے خول ملے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے حوالے سے کوئی بھی بات کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن افسوسناک واقعے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کے تمام افسران کو دھمکیاں ملتی ہیں اور اسی وجہ سے ڈی ایس پی علی رضا کو بھی بلٹ پروف گاڑی فراہم کی گئی تھی۔
ڈی آئی جی نے بتایا کہ مقتول ڈی ایس پی کے جسد خاکی کو انچولی کی امام بارگاہ منتقل کردیا گیا ہے جہاں پولیس اور سی ٹی ڈی کے سینئر افسر بھی پہنچ گئے ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار نے حملے میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس ایس پی سینٹرل سے رپورٹ طلب کرلی۔
پاکستان سٹوریز کو دستیاب معلومات کے مطابق علی رضا مختلف کالعدم تنظیموں کے نشانے پر تھے۔
ڈان ڈاٹ کام کے مطابق مقتول ڈی ایس پی کو دہشتگرد تنظیم کو خفیہ معلومات فراہم کرنے پر 2017 میں ملازمت سے برطرف بھی کیا گیا تھا تاہم بعد میں انہیں بحال کر دیا گیا تھا۔