محمد نوید خان
کینیڈا کی وفاقی حکومت نے اپنی صوبائی حکومتوں کو غیر ملکی طالب علموں کی تعداد کم کرنے کا کہا ہے جس کے بعد سب سے زیادہ غیر ملکی طلبا کو داخلے دینے والے صوبے اونٹاریو میں پالیسی پر عمل شروع ہوچکا ہے۔
غیر ملکی طلبہ کو کم داخلے دینے کی پالیسی پر عمل در آمد تقریبا شروع ہوچکا ہے۔ اس پالیسی کے تحت غیر ملکی طالب علموں جو کہ کینیڈا کی ضروریات اور شرائط جن کا ذکر آگے آئے گا کو پورا کرتے ہیں ان کے لیے ایک زبرست بات یہ ہے کہ ایسے 96 فیصد طالب علموں کو حکومتی سرپرستی میں چلنے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ مل سکے گا جبکہ 4 فیصد نجی اداروں میں داخلہ لیں سکیں گے۔
ان پالیسیوں میں ورک پرمٹ، اسکالر شپ بھی شامل ہے جو پاکستان جیسے غریب ممالک کے ذہین طالب علموں کے لیے سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کی تفصیل آگے چل کر دیکھتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھ لیں کہ تعداد کو کم کیوں کیا جارہا ہے تاکہ آپ کینیڈا کے لیے اپلائی کرنے سے پہلے مکمل تفصیل جاننے کے بعد منصوبہ بندی کرسکیں۔
طلباء کی تعداد کم کیوں جارہی ہے؟
اس سال کے شروع میں کینیڈین حکومت نے کہا کہ وہ ایک حد مقرر کریں گے اور اسی کے مطابق طالب علموں کو کینیڈا میں داخلوں کی اجازت ہوگی۔
یہ بھی بتایا گیا کہ یہ پالیسی دو سال تک نافذ رہے گی جس کے بعد دوبارہ اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
غیر ملکی طالب علموں کے نئے نظام کے مطابق ہر ریاست اور علاقے کو طالب علموں کی مقررہ تعداد الاٹ کی جائے گی۔ تعداد الاٹ کرنے میں مختلف عوامل جیسے کہ صوبے کی آبادی اورطلبہ کی موجودہ تعداد مد نظر رکھی جائے گی۔
یہ مقررہ حد ڈپلومہ اور انڈر گریجویٹ کورسز پر ہوگی تاہم پہلے سے مقیم جن طالب علموں کے اجازت نامے کی تجدید ہونی ہے وہ اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
تعداد الاٹ کرنے کے بعد صوبہ خود فیصلہ کرے گا کہ طالبعلموں کو مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں کیسے تقسیم کیا جائے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک مخصوص حد مقرر کرنے کے بعد کینیڈا جانے والے غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں 35 فیصد کمی آ جائے گی۔
تعداد کی کمی کی وجہ غیر ملکی طلبہ کے مسائل اور ملک کے انفراسٹرکچر پر پڑنے والا بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔
صرف تعداد ہی کم نہیں کی جا رہی بلکہ طالبعلموں کے لیے ورک پرمٹ پالیسی میں بھی تبدیلی کردی گئی ہے۔
پرائیوٹ نہیں صرف حکومتی اداروں کے لیے ورک پرمٹ
کینیڈا جانے والے اکثر طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرکے کینیڈا ہی میں کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کینیڈا میں داخلہ اور ویزہ حکومتی یونیورسٹی میں ہو یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ادارے میں کورس مکمل کرنے والوں کو ورک پرمٹ مل جاتا تھا۔
مگر اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ ستمبر سے پالیسی تبدیل ہوجائے گی۔ دو ماہ بعد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے کالجوں سے کورس مکل کرنے والے طالب علموں کو ورک پرمٹ‘ نہیں دیا جائے گا۔ یہ ورک پرمٹ صرف حکومتی اداروں ہی سے فارغ التحصیل طالب علموں کو ملے گا۔
نئی پالیسی کا مقصد اپنے انفراسٹریکچر پر پڑنے والا بوجھ کم کرنا اور کینیڈا کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔
حکومت نے اپنی پریس ریلیز میں بتایا تھا کہ غیر ملکی طالب علموں میں صرف کینیڈا میں زیادہ طلب رکھنے والے کورسز کو ترجیح دی جائے گی جس میں مختلف شعبوں میں ہنر مند افراد، صحت اور انسانی وسائل سمیت بچوں کی دیکھ بھال والے شعبے شامل ہیں۔
فرانسیسی زبان سے متعلق کورسز کو بھی ترجیح دی جائے گی۔
نئی پالیسی ہے کیا؟
اگر ہم جائزہ لیں تو یکم ستمبر سے نافذ العمل پالیسی کیا ہوگی تو کچھ ایسی خطرناک صورتحال سامنے آتی ہے۔
یکم ستمبر 2024 سے بین الاقوامی طلبا جو کریکلم لائسنسنگ پروگرام کے تحت کورس کر رہے ہیں وہ گریجوئیشن کے بعد پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ کے اہل نہیں ہوں گے۔
کریکلم لائسنسنگ پروگرام کے تحت پرائیویٹ کالجز کو متعلقہ سرکاری کالج کے نصاب کی فراہمی کی اجازت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ حکومتی کالجوں کے نسبت ان کالجزکی نگرانی کم ہوتی ہے۔ جس کا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالب علم پوسٹ گریجویشن ورک پرمٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نئی پالیسی کے زریعے یہ راستہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مگر اس کے ساتھ ایک اور بہت اچھی چیز متعارف کروائی جارہی ہے کہ یکم ستمبر سے ماسٹرز اور دیگر کم دورانیہ کے گریجویٹ سطح کے کورسز کے گریجویٹ تین سالہ ورک پرمٹ کے لیے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔
موجودہ پالیسی کے ورک پرمٹ کے دورانیے کا انحصار سٹوڈنٹ کے مطالعاتی پروگرام کی مدت پر ہوتا تھا۔ اس سے کام کا تجربہ حاصل کرنے اور کینیڈا میں مستقل رہائش اختیار کرنے میں مشکلات آتی تھیں۔
اب اوپن ورک پرمٹ صرف اور صرف ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ پروگراموں کے بین الاقوامی طلبا کے شریک حیات حاصل کر سکیں گے جبکہ انڈرگریجویٹ اور کالج کورسز میں بین الاقوامی طلبہ کے شریک حیات اوپن ورک پرمٹ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔